کرپشن یا نوازشریف؟

پس ثابت ہوا کہ مقصود و مطلوب کرپشن کا خاتمہ نہیں، نوازشریف کے اقتدار کا خاتمہ ہے۔ صرف وہ کمیشن قبول ہے جو ایک ایسا پھندا ایجاد کر سکے جو صرف اور صرف نوازشریف کے گلے ہی کے لیے بنا ہو۔کرپشن کی دیگر صورتوں سے کسی کو کوئی دلچسپی ہے اورنہ کسی دوسرے ‘کرپٹ‘ سے۔ میرے نزدیک یہ مقدمہ اتنا واضح ہے کہ اس کے خلاف کوئی دلیل تلاش کر نے کے لیے بڑی جرأت چاہیے۔

لوگ کہتے ہیں نواز شریف صاحب نے دیر کی اور یہ کہ اپنے حق میں اچھا نہیں کیا۔ اگر وہ پہلے ہی چیف جسٹس کی قیادت میں کوئی کمیشن بنا دیتے تو اتنا غبارنہ اٹھتا۔ میرا خیال ہے یہ اچھا ہوا۔ اگر وہ پہلے ہی ایسا کرتے تو یہ مقدمہ اتنی صراحت کے ساتھ نمایاں نہ ہو تا کہ ہمیں صرف نوازشریف کا سر چاہیے، ان کے سوا کرپشن میں مبتلا مبینہ مجرموں سے ہمیں کوئی سرو کار نہیں۔ نوازشریف صاحب تو مبینہ نہیں، یقیناً مجرم ہیں اور دلیل یہ ہے کہ ‘ہم کہہ رہے ہیں‘ اب کون ہے جو اس برہانِ قاطع کے بعد، دلیل مانگنے کی جسارت کرے؟

پہلے مطالبہ ہوا کہ چیف جسٹس کی قیادت میں کمیشن بنے۔ جب بن گیا تو کہا گیا کہ وہ قانون ہی ناقص ہے جس کے تحت بنا ہے۔ پہلے نیا قانون بنائو۔ سوال یہ ہے کہ جب یہ مطالبہ کیا جا رہا تھا،اس وقت حامد خان صاحب جیسے قانونی دماغ نہیں جانتے تھے کہ جو کمیشن بنے گا کسی مو جود قانون ہی کے تحت بنے گا۔ پھر تحریکِ انصاف کے وکلا نے اس قانون پر جو اعتراضات اٹھائے ہیں،ان کا جواب بھی دے دیا گیا۔ یہ کمیشن ایف بی آر سمیت ہر ادارے سے معاونت لے سکے گا۔ کمیشن کی شرائط (TORs)
طے کرنے میں کلیدی کردار بیرسٹر ظفراللہ خان کا ہے۔ وہ بتا چکے کہ کمیشن فورنزک آڈٹ کا حکم دے سکتا ہے، اس پر رازداری کے کسی قانون کا اطلاق نہیں ہو گا۔ بیرونِ ملک سے شواہد چاہئیں توکیبنٹ ڈویژن تمام وسائل مہیا کرے گا۔ یہ سب وہ باتیں ہیں جو خورشید شاہ یا اسد عمر کہہ رہے ہیں۔ یہ سب مطالبات شرائط میں شامل ہیں۔ اب کہا جا ر ہا ہے کہ نوازشریف اپنے خلاف تحقیقات کے لیے کیسے کمیشن بنا سکتے ہیں۔ معترضین یہ نہیں جانتے کہ یہ کمیشن نوازشریف نامی کسی آ دمی نے نہیں، وزیر اعظم پاکستان نے بنا یا ہے اور آئین انہی کو یہ حق دیتا ہے۔ پھر یہ کہ ملزموں میں بھی نوازشریف نام کا کوئی آ دمی شامل نہیں۔

کہا گیا کہ کمیشن صرف پاناما لیکس کے لیے خاص ہو؟ کیوں؟ اس کا کوئی جواب نہیں۔ اگر کرپشن کا خاتمہ مطلوب ہے تو یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب اس کی ہر صورت اور اس کا ہر مجرم کیفرِ کردار تک پہنچے۔ اگر اس میں کچھ وقت زیادہ لگ جائے تو اس میں کیا حرج ہے؟ اس سوال کا جواب اسی وقت اثبات میں دیا جا سکتا ہے جب لوگوں کا ہدف کرپشن ہو،کوئی فرد واحد نہیں۔
اس وقت نوازشریف کے خلاف نفرت اپنی آ خری حدوں کو چھو رہی ہے۔ ان کے تمام سیاسی مخالفین یہ جان چکے کہ ان کے لیے وہ سیاسی اعتبار سے ناقابلِ تسخیر ہو چکے۔ ان کو انتخابی یا آئینی طریقے سے ہٹانا کم از کم اس وقت مخالفین کے لیے ممکن نہیں۔ وہ خود کو کسی طرح سے بہتر متبادل ثابت نہیں کر سکے۔ نوازشریف قائد اعظم نہیں ہیں۔ اخلاقی حوالے سے کوئی مثالی لیڈر نہیں ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ان کے مخالفین ان کے مقابلے میں بھی کھڑا ہونے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ ان کی عمر ڈھلتی جا رہی ہے اور نوازشریف کے اقتدار کا سورج ڈھلنے کا نام نہیں لے رہا۔ وہ اس سے زچ آ چکے۔ ان کے پاس وقت کم ہے۔ وہ اب اس کے لیے سب کچھ کر گزرنے کے لیے تیار ہیں۔ اب وہ یہاں تک آ پہنچے ہیںکہ بہو کا مان توڑنے کے لیے بیٹا مر تا ہے تو مر جائے۔

نوازشریف کو گرانے کے لیے ملک و قوم کسی عذاب سے گزرتے ہیں تو وہ اس کے لیے بھی تیار ہیں۔ سوال یہ ہے کہ نوازشریف کے خلاف یہ نفرت آخر اتنی گہری کیوں ہے؟

پہلے پیپلزپارٹی کو دیکھیے۔ پیپلزپارٹی، ایک وقت تھا کہ اس ملک کی سب سے بڑی جماعت تھی۔کوئی ایک جماعت یہ صلاحیت نہیں رکھتی تھی کہ اس کو تنہا شکست دے سکے۔ اس کے لیے ہمیشہ اتحاد بنائے جاتے تھے اور وہ بھی ناکام رہتے۔ اس میں شبہ نہیں کہ ملک میں ایک بڑا ووٹ بینک پیپلزپارٹی کے خلاف مو جود تھا۔ جنرل ضیاء الحق نے اس راز کو پا لیا کہ اگر کوئی ایک ایسا لیڈر پنجاب سے نمودار ہو جائے جو پیپلز پارٹی مخالف ووٹوں کو جمع کر سکے تو اس پارٹی سے نجات ممکن ہے۔ ان کی نظرِ انتخاب نوازشریف پر پڑی۔ جنرل حمید گل تک ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے انہیں تیار کیا۔ پہلے اتحادوں کا لیڈر بنوایا اور پھر ان کے ساتھ اُن افرادکو جمع کر دیا جو اپنا حلقہ انتخاب جیتنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ نوازشریف اپنی محنت اور سرمایے کی مدد سے وہ لیڈر بن گئے جو تنہا پیپلزپارٹی کو شکست دے سکتا تھا۔ پیپلزپارٹی اس بات کو کبھی نہیں بھول سکتی۔ یہ ان کے لیے بھٹو صاحب کی پھانسی سے برا حادثہ تھا۔
جماعت اسلامی کی نفرت بھی قابلِ فہم ہے۔ نوازشریف نے جماعت کو اس تھوڑے بہت ووٹ بینک سے بھی محروم کر دیا جو وہ اسلام پسندوں کی نمائندگی کے باعث رکھتی تھی۔1993ء میں نواز شریف نے جماعت سے نہ صرف ووٹ بینک بلکہ وہ نظریاتی وکیل بھی چھین لیے جنہوںنے فکری و صحافتی میدان میں جماعت کا مقدمہ لڑا۔ 1993ء کے انتخابات وہ موقع ہے جو جماعت صلاح الدین شہید، جناب الطاف حسن قریشی اور جناب مجیب الرحمٰن شامی جیسے وکلاسے محروم ہوئی۔کوئی اس کو سمجھنا چاہے تو وہ مناظرہ پڑھ لے جو محترم قاضی حسین احمد صاحب اور شامی صاحب کے مابین ہوا۔ اس کے بعد پھر جماعت کا ووٹ بینک اسے واپس مل سکا اور نہ قریشی وشامی جیسے وکیل۔ جماعت کے نصیب کی بارش اب کسی اور چھت پر برس رہی تھی۔ اس کے ذمہ دار نوازشریف تھے۔ اب جماعت والے ولی اللہ تو ہیں نہیں کہ اس سب کچھ کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لیں۔ انہیں بھی اپنا انتقام لینا ہے۔
عمران خان کا مسئلہ بھی واضح ہے۔ ان کا خیال ہے کہ عوام ان پر فریفتہ ہیں۔ وہ خود تو کسی سے محبت کرنے کے پابند نہیں لیکن عوام یک طرفہ رومان پہ آ مادہ ہیں۔ اکثریت ان کے ساتھ ہے لیکن نوازشریف کو ایسے سیاسی گر آتے ہیں کہ وہ ان کی فتح کو شکست میں بدل دیتے ہیں۔ آئندہ بھی، اگر وہ سیاست میں ایک کھلاڑی کے طور پر مو جود ہیں تو اقتدار کی دیوی ان پر مہربان نہیں ہو سکتی۔ یہ سوچ ان کی نفسیات میں اتنی گہرائی تک اتر چکی ہے کہ وہ انہیں ہر حال میں راستے سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ دھرنے کے بعد تو کم ہی لوگ ہیں جنہیں اس پر شک ہے۔ اس کے لیے وہ طاہر القادری جیسے لوگوں کو ساتھ ملا سکتے ہیں۔ شیر پائو سے اتحاد کر سکتے ہیں، حتیٰ کہ اب زرداری صاحب کو بھی گلے لگا سکتے ہیں۔ نوازشریف کے خلاف نفرت پیدا کرنا ان کی سیاسی حکمت کا بنیادی پتھر ہے۔

یہ ہے اس ملک کا سیاسی اثاثہ۔ اس اثاثے کے ساتھ کیا کسی منزل کا حصول ممکن ہے؟اس لیے میں عرض کر تا ہوں کہ سسٹم میں اصلاح کی ایسی کوشش ہونی چاہیے جو ہمیں کسی نئی آز مائش سے دوچار نہ کرے۔ 126 دن ہم نے ضائع کیے۔ نوازشریف صاحب کے اس سوال میں وزن ہے کہ اس کا حساب کون دے گا؟ کیا یہ عمل خود احتساب کا متقاضی نہیں؟ اس لیے اب یہ سوال اٹھایا جانا چاہیے کہ اپوزیشن کا مطالبہ تسلیم کر نے کے بعد کسی نئی مہم جوئی کا کیا عقلی اوراخلاقی جواز ہے؟یہ بہت ا فسوس ناک ہو گا اگر اس تجزیے کو نوازشریف کی حمایت قرار دیا جائے۔ رومان اور ہیجان یہی کرتے ہیں۔ ہمیں ان سے نکلنا ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے