ڈاکٹر ظفر اسحق انصاری یک چراغ آخریں

میر نے کہا تھا
یہ جو مہلت جسے کہیں ھیں عمر
دیکھو تو انتظار سا ھے کچھ

استاذ الاساتذہ محترم ظفر اسحق انصاری کا انتظار بھی ختم ھوا۔

چند روز قبل اپنے عزیز دوست –اور مجھے عزیز تر –ڈاکٹر ممتاز صاحب کی رحلت کے بعد انکا یہ انتظار گویا اپنے دوست سے ملنے کا انتظار ھوگیا تھا۔
ممتاز صاحب کے انتقال کے بعد انصاری صاحب نے گفتگو کرنا تقریبا ترک کردیا تھا۔ شاید سوچتے ھوں اب دوست سے ملاقات پہ سب باتیں ھوں گی۔ انصاری صاحب! آپ نے تو محفل سجالی ھوگی، ھماری زندگی سونی ھوگئی۔

ایک دوست نے آج خبر سنا کر جنازے میں جانے کو پوچھا تو لگا کہ زندگی یکلخت کسی گہرے سناٹے میں ڈوب گئی:
تو نے پوچھا، درد میرے دل کا دُونا ھوگیا

یاد پڑتا ھے کی انتقال سے کچھ ھفتے پہلے ڈاکٹر ممتاز صاحب نے اپنی مرتب کردہ آخری کتاب کا انتساب انصاری صاحب کے نام کرتے ھوئے مصرعہ لکھا:
شاخ گل میں جس طرح باد صبحگاھی کا نم
مجھ سے کہنے لگے اسے جلی حروف میں لکھنا۔ پھر بہت دیر تک زیر لب یہ مصرعہ دھراتے رھے اور میری جانب اپنے حسن انتخاب کے لئے داد طلب نظروں سے دیکھتے رھے۔ میں انکی آنکھوں میں اترتے حزن اور لہجے کی گھمبیرتا کی تاب نہ لاتے ھوئے سر جھکائے داد دیتا رھا۔ اُس لمحہ یہ نم مجھے انکی آنکھوں میں نظر آیا، ھاں اب یہ میری چشم گریاں کا نصیب ھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نامعلوم، زندگی کی رفتار تیز ھوگئی ھے یا میرا احساس شدید۔ چراغ ھیں کہ بجھتے جارھے ھیں۔
کیسی گھنی، چھتناور، علم و حلم کی منتہی شخصیت تھی۔ مسلم برصغیر کے قدیم و جدید کے امتزاج کی پوری تہذیبی روایت اپنے اندر سموئے ھوئے، کم آھنگ مگر بلند قامت۔ یک پیکرِ اخلاص و تلطف، یک منارہِ شفقت و انسیت۔
انصاری صاحب سے میری ملاقات تو کم کم رھی مگر تاثر گہرا۔ مولانا ظفر انصاری کے فرزند، خود بحر علم کے شناور، بلند پایہ مصنف۔ بیک وقت پانچ چھ زبانوں پر عبور اور دنیا کے اعلی ترین تعلیمی اداروں میں تعلیم و تعلم۔ مشرق و مغرب کے علمی سرچشموں سے فیض یابی نے –زمانے کے چلن کے برعکس– انکے انکسار میں اضافہ ھی کیا۔ تصنیف اور مطالعہ محاورتاً نھیں حقیقتاً انکا اوڑھنا بچھونا تھا۔ ھمہ گیر علمی ذھن اور رچا ھوا ذوق، اس پہ حلاوت اور شیریں سخنی۔ ان خصائل کے اس امتزاج کے ساتھ ھی ایسی تہزیبی شخصیت وجود میں آسکتی تھی۔ میری خوش بختی کہ انکے زمانہ کو پاسکا۔ بالواسطہ اور براہ راست بھی ان سے اکتساب فیض کا کچھ موقع ملتا رھا۔
اپنے علمی مشاغل کے دوران آنے والے ھر قسم کے ملاقاتیوں سے یکساں خندہ پیشانی سے پیش آتے۔
گاھے قریبی دوستوں میں قہقہہ بار دیکھا تو معلوم ھوا کہ خندہء عالِم کا قرینہ کیا ھوتا ھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ھماری زندگی میں قائم اور ایستادہ کوئی زیست آور شخصیت چلی جاتی ھے تو اپنے ساتھ ھماری زندگی کا کچھ حصہ بھی لے جاتی ھے۔ میرے لئے بھی ان دونوں احباب کے باب میں یہی معاملہ ھوا۔

رشید احمد صدیقی نے لکھا تھا کہ "مدت حیات کا حساب مہ و سال کے گذرنے سے ہی نھیں کرتے، عزیزوں کی مفارقت سے بھی کرتے ھیں۔ وہ اٹھا لیے جاتے ھیں تو محسوس ھوتا ھے کہ زندگی ختم ھو گئی۔ زندگی خود اپنی زندگی سے اتنی عبارت نھیں ھوتی جتنی عزیزوں کی زندگی اور خوشی سے ھوتی ھے۔ یہ نھیں تو زندہ رھنا اور نفس کے مطالبے پورا کرتے رھنا ایک مسلسل بے غیرتی اور بڑھتی ھوئی تنہائی اور تاریکی ھے، جس کو نہ چھپا سکتے ھیں نہ اس سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ھیں اور ستم بالائے ستم یہ کہ اسے حق بجانب بھی نہیں قرار دے سکتے۔”
انصاری صاحب اپنی نسل کے آخری چراغ تھے، اب ھماری دنیا کی تاریکی میں اضافہ ھوتا جارھا ھے۔
لیجئے پھر میر یاد آئے:
رفتگاں میں جہاں کے ھم بھی ھیں
ساتھ اس کارواں کے ھم بھی ھیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے