لونڈیوں کے احکام، بشکریہ تہذیب مغرب

قصہ مشہور ہے کہ امیرگو واسپیوٹی (جس نے براعظم امریکہ کے بارے میں واسکو ڈے گاما کا دیا ریڈ انڈین تصور غلط ثابت کر کے اسے ایک نئی دنیا قرار دیا تھا) کے اعزاز میں ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا، کیونکہ ان کی تحقیق کے نتیجے میں نئی دنیا کو اس کا موجودہ نام ملا تھا، جو انہی کے نام کی نسبت امریکہ کہلایا. امیرگو چونکہ اطالوی محقق تھے، اس لیے چند مقامی لوگ ان کی اس عزت افزائی پر خوش نہیں تھے۔ ہوا یوں کہ امیرگو جب سٹیج کی جانب جا رہے تھے تو کچھ لوگوں کی یہ کھسر پھسر ان کے کان میں پڑ گئی کہ موصوف نے کوئی بڑا کارنامہ تھوڑی سرانجام دیا ہے جو ان کے اعزاز میں اتنی بڑی تقریب منعقد کی جا رہی ہے ۔ امیرگو سٹیج پر آئے، ایک انڈہ اور چھڑی اٹھا کر مجمع سے مخاطب ہوئے "کیا یہاں کوئی ایسا انسان موجود ہے جو اس انڈے کو چھڑی کے اوپر رکھ سکے”
کئی لوگ آئے، کوشش کی مگر ناکام لوٹے. بالآخر انہوں نے خود وہ انڈہ اٹھایا اس میں ہلکا سا کریک ڈالا اور چھڑی پر رکھ دیا۔ اس کے بعد گویا ہوئے کہ بعض اوقات اصل کام دکھنے میں مشکل نہیں لگتا لیکن اس کے پس پشت کارفرما عوامل پراگرغورکیا جائے تواس کام کی اہمیت کا ادراک ہو جاتا ہے۔ راوی لکھتا ہے کہ اس وضاحت کے بعد جب مجمع نے کھڑے ہو کر تالیوں کی گونج میں امیرگوکی ذہانت کا اعتراف کیا تو وہی نکتہ چین سب سے آگے تھے جو اس ایکسرسائز سے پہلے تحفظات کا شکار تھے۔

اس واقعہ کو یہیں چھوڑیے اور آرام کرسی پر ٹیک لگا کر اپنی آنکھوں کو موند لیجیے، تصورکیجیے ایک ایسے معاشرے کا جہاں غربت، تنگدستی اور قبائلی ونسلی لڑائی آپ کوغلام بنانے کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اگر آپ اپنے آبائی علاقے میں کمزور ہیں اور تنگ آکر ہجرت کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں تو آپ کو غلامی کی زندگی کے لیے تیار رہنا پڑے گا۔ غلام بنائے جانے سے پہلے کہیں بھی اس تحقیق کا رواج اور قانون موجود نہیں کہ آپ آزاد پیدا ہوئے تھے یہ غلام۔ اگر آپ کمزور ہیں، غریب ہیں، اجنبی ہیں، اپنے آبائی علاقے سے دور ہیں اور آپ کے ساتھ قوت اور جمعیت نہیں ہے تو آپ کو غلام بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اورتواوراگرآپ شاہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں مگر اپنی مملکت کے باہر کسی طاقتور کے ہاتھ لگ جائیں تو آپ کا غلام بنا دیا جانا اور آپ کی بہن بیٹیوں کا لونڈیاں بنا کر سر بازار بیچ دینا ایسا ہی ہے جیسا آپ کے لیے پیزا خریدنا۔ اسی پر بس نہیں بلکہ اگر آپ غلام یا لونڈی بنا دیے گئے تو آپ کے تمام تر انسانی حقوق فورا سے پہلے ضبط ہو جائیں گے۔ آپ کی حیثیت گندم کی بوری جتنی بھی نہیں رہے گی۔ آپ کا مالک آپ کو مارے، پیٹے، بیچے یا دن رات آپ کو استعمال کرے اسے دنیا کا کوئی قانون چیلنج نہیں کر سکتا۔ اورزندگی اپنی آب و تاب سے جاری ہے۔ یاد رہے ایسا صرف عرب کے ریگزاروں میں نہیں بلکہ یورپ کی گندی گلیوں میں ہوتا ہو اور ہندوستان کی جادوئی سرزمین پر بھی۔ تصور ہی میں ذرا سوچئے اس معاشرے میں آپ کیا کریں گے.؟

میرے خیال میں اگر آپ معقول انسان ہیں تو ایک انقلابی نظام متعارف کرائیں گے جس میں سب سے پہلے تمام آزاد لوگوں کوان کی آزادی کا تحفظ اس قانون کے تحت عطا کریں گے کہ آج کے بعد کوئی ایسا انسان غلام نہیں بنایا جائے گا جسے اس کی ماں نے آزاد جنا ہو۔ جو لوگ غلامی کی زندگی گزاررہے ہیں اگر آپ کے انقلابی نظام کو قبول کر لیں تو فورا آزاد ہو جائیں گے۔ اوراس کے بعد بھی اگر کوئی غلامی کی زندگی کوآپ کے بہترین معاشرتی نظام پر ترجیح دے تو اسے کم از کم انسان سمجھا اور مانا جائے گا۔ اس کی عزت نفس کو مجروح کرنے کی اجازت نہیں ہوگی، اسے اپنے مالک کے خلاف شکایت کرنے کا حق حاصل ہو گا، اس پر ضرورت سے زیادہ کام کا بوجھ نہیں لادا جائے گا، اس کے ساتھ ساتھ آپ کے انقلابی نظام میں بات بے بات غلام اور لونڈی کے حقوق کی طرف متوجہ کیا جائے گا، ان کے ساتھ اچھے سلوک کو سراہا جائے گا، بلکہ آپ کے نظام کو قبول کرنے والوں کو بار بار کہا جائے گا کہ غلام اورلونڈی کوآزاد کرنے کے ہوشربا فوائد و ثمرات آپ کے لیے خالق کائنات نے تیارکررکھے ہیں، خود آپ کا عمل ایسا ہو گا کہ غلام اور لونڈیاں جوق در جوق آپ کے انقلابی پروگرام کو قبول کر کے پروانہ آزادی پر دستخط کرتے جائیں اورآزادی کی نعمت سے سرفراز ہوتے جائیں گے۔ اور یہی کام اسلام نے کیا تھا.. بلکہ غلام اورلونڈی کو اسلام نے اتنی عزت دی کہ مخالف نظام پریشان ہو کراپنے خود سرچاپلوسوں سے کہتا پھرتا تھا کہ دیکھو پاگل پن کی انتہاء ہو چکی، ایک شخص غلاموں کو اپنے ساتھ بٹھانے کی بات کرتا ہے…..

اب آنکھیں کھول دیں اور اپنے ارد گرد دیکھیں، کسی جگہ اگر آپ کو وہ لوگ نظر آئیں جو کہیں کہ دیکھو فقہاء کے نزدیک غلام اورلونڈیوں کے احکام کیسے عجیب وغریب ہیں توان احکام کوآج کے تناظرمیں نہیں بلکہ اس وقت کے تناظر میں دیکھیں جب مجھ اور آپ جیسے کمزور انسان کو غلام اور لونڈی بنانا پیزا خریدنے جیسا تھا، جب میری اور آپ کی بطور غلام حیثیت آٹے کی بوری جتنی بھی نہیں تھی.. بہرحال آگے چلتے ہیں..

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس انقلابی نظام کی آپ بات کر رہے ہیں اس نے غلامی کو ختم نہیں کیا بلکہ طول دیا لیکن مغربی تہذیب نے انسانیت پر یہ احسان کیا کہ انہیں غلامی سے نجات دلا دی، ایسا کیوں؟

جناب من! ایسا اس لیے کہ معاشرہ ارتقاء کی علامت ہے۔ ہزاروں سال سے جس معاشرے نے ہر ایک کو غلام بنانے کے عمل کو فاتحانہ رسم اور قانون کا درجہ دے رکھا تھا اس معاشرے پر ہرایک کوغلام بنانے کی پابندی لگانا اس ارتقاء کی بنیاد تھی جس کا عروج غلامی پر پابندی کی صورت سامنے آیا. اس میں کوئی شک نہیں کہ بظاہر یہ آخری اقدام تہذیب مغرب کے حصے میں آیا، لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے پہلے قدم کو یکسر نظر انداز کر دیا جائے.؟ اب آجائیں امیرگو واسپیوٹی کی اس ایکسرسائزکی طرف جو ہم نے تحریر کے شروع میں بیان کی تھی اور سوچیں کہ جس طرح امیرگو کی تحقیق سے واسکو ڈے گاما کا اعزاز ختم نہیں ہوا بالکل اسی طرح تہذیب مغرب کے اچھے اقدام سے اسلام کا اعزاز کیسے ختم ہو سکتا ہے.؟ اور تہذیب مغرب ہی اگر حرف آخر ہے تو عراق و ایران پر نوے کی دہائی میں جو پابندیاں تہذیب مغرب نے لگائی تھیں اور جن کی وجہ سے وہاں بسنے والے کروڑوں انسانوں کوغلام تودورانسان ہونے کا درجہ بھی نہیں دیا جا رہا تھا، وہ کیا تھا.؟ کیا آپ عراقی بچوں کے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر موت کے منہ میں جانے والے مناظر بھول گئے ہیں.؟ چلیں یہ بات پرانی ہے اور آپ بھول گئے ہیں تو کیا لیبیا ،شام اورافغانستان کو بھی نہیں یاد.؟ یہ تو ابھی کل کی بات ہے کہ وہاں کے انسانوں سے صرف اورصرف اس لیے جینے کا حق چھین لیا گیا ہے کہ وہ آپ کے محبوب نظام کے خلاف ہیں. آپ نے انہیں غلام تو دورانسان بھی نہیں مانا، شام میں ڈھائی لاکھ لوگ مر چکے ہیں، اورآپ مزید کوماررہے ہیں، حالانکہ ان کا سوائے اس کے اور کوئی قصور بھی نہیں کہ انہوں نے جدید تہذیب کی آڑمیں لائے گئے آپ کے جابرانہ نظام کی مخالفت کی ہے… تہذیب مغرب نے اسرائیلی سرپرستی میں فلسطینی عوام کو جس غلامی میں دھکیل رکھا ہے اس میں تو انہیں وہ حقوق بھی حاصل نہیں جو اسلام نے پندرہ سو سال پہلے یہودیوں کوعطا کیے تھے…

اگر آپ کے نظام سے بغاوت کرنا ہی انسانیت کوغلامی کے ایسے چنگل میں پھنسانے کے لئے کافی ہے جہاں ان کے پاس غلامی کے حقوق تو درکنار، جینے کا حق بھی نہ ہو تو پھر کم از کم اسلام کی یہ خوبی تو مانیں کہ اس نے پہلے تو کھلے دل سے آزادی کی آفردی، پھر کسی آزاد کو غلام بنائے جانے پر پابندی عائد کی، اور اس سب کے بعد بھی جوغلام بچ جائے اسے بحیثیت غلام اس کے انسانی حقوق عطا کیے. ہاں اگر یہ حقائق آپ کی نظروں سے اوجھل ہیں تو ایک بار پھر سے آنکھیں موند کر کرسی کی پشت سے سر ٹکائیے، اور اسلامی نظام نے جو حقوق غلام اور لونڈیوں کو دیے ان کا تصور کر کے مصافحہ جائز کیجیے تاکہ تہذیب مغرب کا شکریہ ادا کرنے کی راہیں کھل سکیں۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے