راحیل شریف تیرا احسان ہے

29 نومبر 2013 کو آرمی چیف کا عہدہ سنبھالا۔ جنرل راحیل شریف افواج پاکستان کے پندرویں اور موجودہ سربراہ ہیں۔ حب الوطنی، پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور پاکستان کی خدمت کے عوض عوامی مقبولیت اور پزیرائی کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔ عوامی مقبولیت کا یہ اعلیٰ مقام کسی سیاسی شخصیت کو کبھی حاصل نہیں ہوا۔ اِن کی خدمات کو مُلک میں ہی نہیں دُنیا بھر پزیرائی مل رہی ہے۔ قوم رہبر ملت قائداعظم کو اِن الفاظ کےساتھ خراج عقیدت پیش کرتی ہے ۔ یو دی ہمیں آزادی کہ دُنیا ہوئی حیران اے قائداعظم تیرا احسان ہے تیرا احسان۔

آج ایک بارپھر قوم اپنے رب کے سامنے سجدہ سجود ہے اور رب کا شکر بجا لاتی ہے کہ اُس نے ہمیں جنرل راحیل کی صورت میں بیباک،نڈر، بہادر، شجاعت اور عظیم رہبر و سپاسلار عطا کیا۔ جنرل راحیل شریف قوم کو قائداعظم کا پاکستان لوٹانے میں پوری قوت کے ساتھ کوشاں ہے۔ منتشر قوم کو یکجا کرنے میں اپنا کردار بہ خوبی نبھارہے ہیں۔ یہی وجہ ہے اِس مردِ مجاہد کے لئے قوم کہ رہی ہے۔ تم ہی ہو جس نے قوم کو تحفظ دینے کا وعدہ کیا۔ تم ہی ہو جس نے وطنِ عزیز سے دہشت گردی کے خاتمے کا بیڑا اُٹھایا۔۔ تم ہی جو دشمنانِ وطن کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا نے کو درپے ہو۔۔ تم ہی ہو جس نے میرے پیارے وطن سے کرپشن کے ناسور کو جڑ سے اُکھاڑنے کا عزم کیا۔تم ہی ہو جس نے دنیا میں پاکستان کی اہمیت کو منوایا۔کراچی کو امن کی خوشبو سے معطر کیا۔ کراچی کے باسیوں کو چین و سکون دیا۔ شہر قائد کی در ودیوار پر عوام کو تحفظ فراہم کرنے والے سپوتوں کی تصاویر نمایاں ہیں۔

کراچی میں امن کے لیے عملی طور پر وہ کچھ کر دکھایا جس کو تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ سیاسی چیخ و پکار بھی کراچی آپریشن کی رفتار کم نہ کرسکی ۔ کرپشن کو اپنا حق سمجھنے والے اور ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے والوں کی دھونس دھمکیاں اور سیاسی حربے بھی کارگر ثابت نہ ہوسکے۔ سند ھ رینجرز اپنے خلاف ہونے والے تمام تر سازشی حربوں کی پرواہ کیے بغیر کراچی کے عوام کے دِل جیت رہے ہیں۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی آر نہیں کراچی کا ہر فرد آپ کے لیے یہی کہتا ہے نظر آتا ہے ” راحیل شریف تیرا احسان ہے تیرا
احسان”۔

دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف انتہا پسندی کے خلاف جو جنگ لڑی جارہی ہے پوری قوم کی حمایت کے ساتھ وہ اس وقت تک کامیابی سے ہم کنارنہیں ہوسکتی اور پائیدار امن حاصل نہیں ہوسکتا جب تک کرپشن کی لعنت کوجڑ سے اکھاڑ نہ دیا جائے ۔ کرپشن کے خاتمے کے ضمن میں آئے دِن حکومت اور اپوزیشن کی جانب بیان بازی کا سلسلہ جاری رہتا ہے لیکن عملی اقدامات کا آج تک انتظار ہے۔ سیاستکاری کے ماہر بھول جاتے ہیں کہ کرپشن کے خاتمے تک روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ بے سود ہے۔ بعض اوقات تو ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں سیاستکاری اور بیان بازی چولی دامن کا ساتھ ہے۔ احتساب کے حوالے سے دونوں فریقین کی سنجیدگی اور احتساب کی معنویت پر ایک سوالیہ نشان لگتا دکھائی دیتا ہے۔مسلسل گویائی کی وجہ سے ہمارے رہبر و رہنماﺅں کے بیانات طنز و مزاح کی حیشیت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ اُس کو کیوں نہیں پکڑا جاتا ؟ وہ مقدس گائے۔ یہ مقدس گائے، پہلے اُن کا احتساب کرو، اپنے گھر سے شروع کریں، پارلیمنٹ بالادست ہے، جمہوریت کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ اس قسم کی فضول گویائی نے عملی اقدامات کو آگے نہیں بڑھنے دیا۔

کوئی بھی یہ بات نہیں کرتا کہ کرپشن کو فروغ دینا چاہئے یا کرپشن کوپھلنے پھولنے کا موقع دینا چاہئے۔ لیکن اِ س ناسور کو کاٹنے کے لیے مثبت قدم نہیں اُٹھاتے۔ بات کچھ اور ہے مگربات ہے رسوائی کی۔ درحقیقت حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف دونوں نے ہی جزاو سزا کے عمل کو اپنانے سے گریز کیا۔ اقتدار کی باریاں لگی ہوئی ہے۔ کیونکہ یہ بھی ٹھوس حقیقت ہے کہ جرائم پیشہ اور بدعنوان عناصر سیاسی جماعتوں کی سرپرستی میں پروان چڑھتے ہیں۔ توپھر کس طرح ممکن یہ لوگ ایک دوسرے کی بدعنوانیاں اور بدمعاشیاں عوام کے سامنے آشکار کریں۔

سیاسی قیادت شاید اِس بات کو تسلیم نہ کریں کہ سیاست دانوں کا احتساب صرف بیان بازی، الزام تراشی اور میڈیا تک محدود رہا ہے۔ جزا و سزا کے عمل کو پاکستانی عوام نے نہ کبھی دیکھا اور نہ کبھی سُنا۔ کیونکہ کبھی جمہوریت خطرے میں پڑجاتی ہے اور کبھی نظام لڑکھڑانے لگتا ہے۔ اِس کے برعکس عسکری ادارے میں جزا و سزا کا ایک موثر نظام موجودہے۔ دُنیا بھر میں پاک فوج کی انتظامی امور کی مثال دی جاتی ہے۔ بنیادی وجہ یہی ہے کہ جرم کا کڑا احتساب ہوتا ہے۔ کورٹ مارشل کے تحت سزاﺅں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔حساس نوعیت کے وجہ سے فیصلے عوامی سطح پر آشکا نہیں کیے جاتے۔ پاک فوج میں انصاف اور احتساب مضبوط نظام ہے۔

نیشنل ایکشن پلان کے تحت فوجی عدالتوں کا قیام اِس بات کو تقویت دیتا ہے کہ پاک فوج میں سزا اور جزا کا عمل تیز، شفاف اور غیر جانبدار ہے۔ جب کبھی بھی ملک میں کرپشن کی داستانِ منظرِعام پر آتی ہے ۔لا حاصل بحث و مباحثہ کا ایک نہ رُکنے والا سلسلہ شروع ہوجاتاہے۔ سیاستکاری کرتے ہوئے مُلک کے دفا عی اداروں پر بے جا تنقید کے نشتر چلائے جاتے ہیں۔ مقد س گائے کا راگ الاپنے والے اگر بند آنکھ سے نہیں کُھلی آنکھ سے دیکھنا شروع کریں توشرمندگی سے سر نہیں اُٹھا سکتے۔ مُلک کی تعمیر و ترقی میں پاک فوج اہم کردار ادا کررہی ہے۔

ملک میں کچھ ایسے سیاسی عناصر بھی ہیں جن کو پاک فوج کا یہ کردار بھی ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ وہ آرمی کے اِس تعمیری کردار کو بھی گناہ کبیرہ تصور کرتے ہیں۔ یہ سیاسی عناصر پارلیمنٹ ، جمہوریت اور آئین کی چادر میں چھپے ملک کو بُری طرح نوچ بھی رہے ہیں اور پوری طاقت سے لوٹ بھی رہے ہیں۔ ایسے لوگ یاد کریں کہ جب بھی وطنِ عزیزپر ناگہانی آفت آئی پاک فوج نے عوام کی جان و مال کا تحفظ یقینی بنانے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی۔ جب بھی دشمن نے سرحدوں پرشر انگیزی کی پاک فوج نے منہ توڑ جواب دیا۔

پاناما لیکس کے حوالے سے حزبِ اختلاف اور حزِ ب اقتدار دست و گریبا ں ہیں۔ ہمیشہ کی طرح کسی نقطہ پر اتفاق رائے نہ ممکن سی بات ہے۔ میڈیا کافی حد تک اپنا کردار باخوبی نبھارہا ہے جس کی وجہ سے عوا م میں مزید آگہی اور شعور آرہا ہے۔ ٹالک شوز میں عوامی نمائندوں کی توں توں میں میں جار ی تھی۔ ” مقدس گائے” اور ” اپنے گھر سے آغاز کرنے” کے گیت سُننے کو مل رہے تھے۔آرمی چیف کی فہم و فراست، دانش مندی سب کے سامنے عیاں ہے۔ بات ہو 126 دِن کے دھرنے کی۔ بات ہو اُن کی ملازمت میں توسیع کی۔ گڈ گورننس کے حوالے سے بیاں ہو یا پھر کرپشن اور احتساب کے حوالے تشویش۔ وہ غیر ضروری بحث کا خاتمہ کرنا اچھی طرح جانتے ہیں۔ اِس بار بھی ایسا ہی ہوا کرپشن اور احتساب کے حوالے سے بیان کے بعد عملی قدم اُٹھاکر سیاستکاری پر کاری ضرب لگا کر بحث برائے بحث کا سلسلہ ختم کرڈالا۔ آرمی چیف نے فوج کے حاضر سروس افسران پر کرپشن ثابت ہونے پر برطرف کرکے ایک شاندار مثال قائم کردی۔

کیا اب ریاست کے دیگر ادارے بھی محترک ہونگے؟۔ آپریشن ضربِ عضب جس کا خواب امن کا قیام تھا اب اِس کی تعبیر بدعنوانی کا خاتمہ ہے۔عوام پاک فوج کے ہر عمل کو پسند کر رہی ہے۔ عوام میں ایک اُمید پیدا ہوئی ہے کہ مُلک میں بدعنوان عناصر کا اب احتساب شروع ہو نے لگا ہے۔ عسکری ادارے نے اپنے احتساب کے حوالے سے چے مےگوئیاں کا خاتمہ کرکے سیاسی و عوامی قیاد ت کو اپنے اندر سے کالی بھیڑوں کا نکالنے کا موقع فراہم کردیا ہے۔ اگر اب بھی سیاستدانوں نے ہوش کے ناخن نہیں لیے تو وہ دِن دور نہیں جب عوام جمہوریت سے نفرت اور آمریت سے محبت کرینگے۔

بیشک عزتیں اور شہرتیں منجانب اللہ ہوتی ہیں۔۔۔۔ بہت بہت مبارکباد۔ قوم کو اپنے سپاہ سالار پر فخر ہے جس نے حب الوطنی ثابت کی اورہمیشہ ادارے اور اپنے عہدہ کا مان رکھا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے