مٹکا،بکری اور پانامہ لیکس

پرانے وقت کی بات ہے ایک شخص نے گائوں سے باہر جانے والے رستے میں ایک مٹکہ اس طرح لگوایا کہ اسکے چاروں طرف دیوار بنوائی اور مٹکے کو روز پانی سے بھرا جاتا تاکہ آنے جانے والے مسافر پیاس کی محسوس ہونے پر اس میں موجود پانی سے پیاس بجھا سکیں ،ایک دن ایسا ہوا کہ ایک بکری نے کہیں اس مٹکے سے پانی پینے کی کوشش کی پانی تو پی لیا لیکن مٹکے میں پانی کی سطح کم ہونے کے باعث اپنا سر اس مٹکے میں پھنسا بیٹھی۔کچھ دیر میں وہاں گائوں کے باسی جمع ہونا شروع ہوگئے اور ہر ایک بکری کا سر مٹکے سے نکالنے کےلئے اپنے مشورے دینے لگا،اتنے میں وہ آدمی بھی آپہنچا جس نے مٹکا لگوایا تھا اس نے کہا احتیاط کے ساتھ پوری دیوار کو توڑو اور مٹکہ پورا باہر نکال لو ٹوٹنے نہ پائے اور اس سے بکری کا سر پھر باہر نکالو،دیواریں توڑ دی گئی لیکن بکری کا سر بدستور مٹکے میں پھنسا تھا لوگوں نے مشورہ دیا حضور مٹکا توڑ دیں،بکری کی جان بچ جائے گی اور باسانی سر بھی باہر آجائے گا لیکن اس آدمی کی ضد تھی کہ مٹکا نہ ٹوٹنے پائے آخر کار اس ضد کے آگے جب صورت نہ بنی اور بکری بھی قریب المرگ ہوئی تو بکری کو ذبح کر دیا گیا اور مٹکا توڑے بغیر اس کا سر باہر نکالا گیا،

اس وقت ہمارے ملک کی صورتحال بھی کچھ ایسی ہی ہے جہاں حکمران اپنی اور اپوزیشن جماعتیں اپنی باتیں کرتی جا رہی ہیں کوئی بھی دوسرے کی بات کو ٹھنڈے دل اور دماغ سے سننے کو تیار نہیں اپوزیشن نے پانامہ لیکس کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تو سابق جج کی سربراہی میں کمیشن کا فیصلہ ہوا اپوزیشن نے چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا تو حکومت نے اسکےلئے خط تو لکھ دیا لیکن کرپشن کے حوالے سے تحقیقات انیس سو سینتالیس سے شروع کرنے کا عندیہ دے دیا،

اب اسوقت جو صورتحال بنی ہوئی تھی اس میں مطالبہ تو پانامہ لیکس کے حوالے سے تحقیقات کا تھا جس کےلئے کمیشن بنانا تھا اور حکومت کی طرف سے اس حوالے سے وضاحتیں بھی دی جا رہی تھیں کہ وزیر اعظم کا پانامہ لیکس سکینڈل سے تعلق نہیں،اب جب تحقیقات کا معاملہ آیا تو حکومت نے بھی معاملے کو اسی طرح الجھا دیا جس طرح بکری کا سر مٹکے سے نکالنے کےلئے اس آدمی نے اپنی شرائط رکھ دیں تھیں اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بکری کو ذبح کرنا پڑا،اگر دیکھا جائے تو کرپشن کے حوالے سے تحقیقات کرانے اور خصوصی اختیارات کے ساتھ کمیشن بنانے میں کوئی حرج نہیں لیکن اس کاٹائم فریم اور مراحل طے کر لئے جائیں

پہلے پانامہ لیکس کے حوالے سے تحقیقاتی عمل مکمل کیا جائے اور ذمہ داران کا تعین اور کارروائی کرنے کے بعد آئندہ کے مراحل شروع کئے جائیں بھلے انیس سو سینتالیس سے شروع کریں یا دوہزار سولہ سے،یہ ایک سیدھا سادہ سا حل ہے جو نہ تو اپوزیشن کو سمجھ آرہا ہے اور نہ حکومت کو ہر کوئی اپنے مطالبے پر ڈٹا ہوا ہے اور صرف اپنی منانے کی کوشش میں ہے اس ساری صورتحال کو دیکھ کر لگتا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کی لڑائی میں کہیں بکری ذبح ہی نہ ہو جائے،

اب ضرورت اس امر کی ہے دونوں اطراف کو ہوش کے ناخن لیں اور مل بیٹھ کر کمیشن اور تحقیقات کے حوالے سے ٹی او آرز طے کر لیں جس سے مسئلہ بھی حل ہو جائے اور سسٹم بھی چلتا رہے لیکن حکومت اور اپوزیشن کو یہ سمجھائے کون کیونکہ دونوں ہی سسٹم میں رہتے ہوئے سسٹم کے خلاف جا رہی ہیں،خدشہ ہے کہیں یہاں بھی بکری ذبح ہی نہ ہو جائے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے