شجر سایہ دار

وہ ایک سہانی صبح تھی ، سورج نے ابھی صرف مشرقی اوٹ سے جھانکتے ہوئے اپنی کرنوں کو بکھیرنا شروع کیا تھا ۔ طلوع خورشید کی سنہری کرنوں سے دل و دماغ کو روشنی اور امید کا پیغام مل رہا تھا ۔ اور میں صبح کی واک کیلئے اس پارک میں آیا تھا ۔ جو کئی سالوں سے میرا معمول تھا ۔ جسمیں کبھی کمی بیشی بھی آجاتی تھی ۔ لیکن آج ٹھنڈ کچھ ذیادہ محسوس ہو رہی تھی ۔ ۔۔۔ میں نے محسوس کیا تھا کہ نو جوانوں کے مقابلے میں اس پارک میں صبح کی واک کرنے والوں میں بزرگ ذیادہ ہوا کرتے تھے ۔ ۔۔۔اور پھر واک کے بعد پارک کی ان بنچوں پر یہ سارے بزرگ مل بیٹھتے اور حالات حاضرہ سے لیکر نواجوانوں کے المیوں تک۔۔۔۔ سارے موضوع انکی گفتگو کا حصہ ہوتے ۔۔ اور میں چپ چاپ جب پارک کا چکر کاٹتے ہوئے انکے قریب سےگذرتا تو انکی گفتگو کے کچھ ٹکڑے میری سماعت سے بھی ٹکراتے۔۔۔۔لیکن شاید ٹھنڈ بڑھنے کی وجہ سے آج بزرگ بھی اکا دکا نظر آ رہے تھے ۔ کیوں کہ سردیاں آتے ہی بزرگ اپنی صحت کے حوالے سے کچھ ذیادہ ہی متفکر ہو جاتے ہیں ۔ ۔۔۔۔۔

آج ان بنچوں پر مجھے وہ اکیلے نظر آ رہے تھے ۔ میں اپنے 7 چکر مکمل کرنے کے بعد آج انکے قریب بیٹھنے کا سوچنے لگا ۔ قریب آتے ہی میں نے کہا ۔۔۔بزرگو ! آج اکیلے بیٹھے ہو ؟۔۔۔۔۔
میری بات سن کر ۔۔۔۔انہوں نے انتہائی محبت سے کہاں ۔۔۔۔بیٹا ادھر بیٹھ جائیں میرے قریب ۔۔۔۔۔آج سردی کی وجہ سے شاید ہماے ساتھی نہیں آ پائے ” انہوں نے جملہ مکمل کیا ۔
بیٹا” ۔۔۔ سننا تھا ۔۔ میرے دل میں تو جیسے سکون پڑ گیا ۔۔۔۔ آٹھ برس ہو گئے تھے مجھے ا س لفظ کو سنتے ہوئے ۔ ۔۔۔بیٹے اور بیٹا ۔۔۔کو سننے کیلئے میری سماعتیں گویا ترس رہیں تھیں ۔۔۔۔جب میرے والد مجھے زندگی کے تھپیڑوں سے مڈ بھیڑ کرنے کیلئے تنہا چھوڑ گئے تھے ۔۔۔۔۔اور پھر ان بزرگ کے ساتھ اس پارک میں بنچ پر بیٹھتے ہوئے ۔۔۔۔ میں نے ایسے ہی ۔۔۔۔خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا ۔۔باباجی ۔۔۔ماشاء اللہ سے کتنے بچے ہیں ۔۔۔ کیا کرتے ہیں ؟۔۔۔۔۔۔ انکے بیٹا کہنے کے بعد ۔۔۔ میں بزرگو ۔۔۔سے ۔۔۔ بابا جی پر آ گیا تھا ۔۔۔

انہوں نے کھنکھارتےہوئے گویا اپنا گلا صاف کرنے کی کوشش کی ۔۔۔اور گویا ہوئے ”بیٹا ، اللہ پاک نے مجھے چار بیٹے عطا کئے ، انکو لکھایا ۔۔۔ پڑھایا ۔۔۔ ماشاءاللہ سے دو امریکہ میں ہیں ۔۔۔ ایک لندن میں اور ایک کینیڈا میں ہے ۔۔۔ ماشاءاللہ سب خوش ہیں ۔۔ اللہ کا کرم ہے ۔۔۔۔”
میں نے محسوس کیا کہ جملہ پورا کرتے کرتے شروع میں انکے جملے میں جو تفاخر تھا۔۔۔۔۔آہستہ آہستہ وہ مایوسی اور ایک اداسی میں بدل گیا تھا۔۔۔۔۔۔شاید وہ اپنے اندر کے احساس تنہائی سے لڑنے کی کوشش کر ہے تھے ۔ ۔۔۔

وہ ۔ اب اپنی عمر کے اس حصے میں پہنچ چکے تھے ، جہاں ان جیسے لوگوں کو عموما بابوں کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ جب معاشرے میں انہیں بوجھ سمجھا جاتا ہے ۔ نوجوان انہیں قدیم دنیا کا با سی خیال کرتے ہیں۔ گھر والے کسی ناکارہ چیز کی طرح کسی کونے میں پھینک دیتے ہیں ۔ یا انہیں ایک ایسا پھل تصور کیا جاتا ہے ۔ جسمیں اب کوئی رس باقی نہیں بچا ہوتا ۔ بچے انہیں آتے جاتے چھیڑنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اٹھکیلیاں کرتی لڑکیاں اپنی ہم جولیوں کے ساتھ ، انہیں دیکھ کر انکی جوانی کے روپ پر دبی دبی سی زبان میں تبصرہ کرتی ہیں ۔( کہ اس بڑھاپے والے کی جوانی کیسی ہوگی ۔ لگتا ہے کسی عشق نے انہیں عمر سے پہلے ہی بوڑھا کردیا ہے ۔) اور کچی عمر کے نو جوان انکی جھکی گردن دیکھ کر شاید گرنے والے درخت سے تعبیر کرتے ہوں ۔
لیکن انہیں کیا معلوم کہ جن کندھوں پر زمانے بھر کے تجربات کا بوجھ ہو ۔۔۔۔ جس سر میں زمانے کو پرکھنے کی کسوٹیوں کا بھاری علم ہو ،۔۔۔۔۔۔۔ اور جس نے مقدور بھر خاندان کی کفالت کا 70 سالوں تک بوجھ اٹھایا ہو۔۔۔۔۔ ۔ جنکی آنکھیں چٹکی میں ایک نطر ڈال کر حقیقت سے آشنا ہونے کا ہنر رکھتی ہوں ۔۔۔۔۔ جو مشینی دور کے انسان کو دیکھ کر ان میں اپنی اقدار سے دوری پر ۔۔۔دن رات کڑھتے ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ ایسی گردنیں جھک ہی جاتی ہیں ۔۔۔۔ وہ بھی ایک ایسی ہی جھکی ہوئی گردن لئے اس دن صبح سویرے پارک میں ورزش کرتے نو جوانوں کے سامنے موجود تھا ۔ پر اکیلے ۔۔۔۔۔۔
اور میں سوچنے لگا ۔۔۔کہ انسان اس دنیا میں تنہا ہی آتا ہے ۔۔۔۔اور اس دنیا میں پہلا قدم دھرتے ہی ۔۔۔اسکی بے وفائی اور اسکی جفاوں پر اسکی چیخیں نکل جاتی ہیں ۔۔۔اور پھر اپنی زندگی کا سرکل پورا کرتے ہوئے وہ آہستہ آہستہ پھر تنہا ہوتا جاتا ہے ۔۔اپنے آخری سفر کیلئے کہ وہ سفر اس نے تنہا ہی طے کرنا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔
میرے سامنے بیٹھے بابا جی بھی شاید اپنی اولاد ہوتے ہوئے بھی اسی تنہائی کے سفر پہ گامزن ہو چکے تھے ۔۔۔۔۔۔۔انکے گھر میں بھی تنہائی تھی ۔۔۔۔۔۔یہ اپنی تنہائی کو ا س پارک میں آکر توڑتے تھے ۔۔۔۔ لیکن آج یہ یہاں بھی تنہا تھے ۔۔۔۔۔۔زندگی کے سفر میں آگے بڑھتے بڑھتے تنہائی ہی شاید ہماری ساتھی بن جاتی ہے ۔۔۔۔۔میرا بچپن چونکہ ایک دیہات میں گذرا ۔اور پھر وہاں اس بینچ پر بیٹھے بیٹھے میں اس شہری زندگی اور دیہاتی زندگی کی تنہائی ۔۔۔اور اس عمر کے بزرگوں کی تنہائی کا موزانہ کرنے لگا ۔۔۔۔۔۔ میں شاید کئی سال پیچھےچلا گیا ۔۔۔۔اور مجے تصور خیال میں نظر آیا ۔۔۔کہ ہمارے گاؤں میں بھی تو ایک بزرگ ۔۔۔اور باباجی تھے ۔۔۔یہ میرے اپنے بابا جی تھے ۔۔۔جو مجھے بیٹا کہتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔لیکن وہ جب شام کے وقت گاؤں کی بیٹھک میں بیٹھتے ۔۔۔ تو وہ کبھی اکیلے نہیں ہوتے تھے ۔۔۔۔ نوجوانوں کا ایک ھجوم ہر وقت انکے ارد گرد رہتا۔۔۔۔۔۔انکے سامنے ۔۔انکے احترام میں شاید کم ہی لوگ بولتے تھے ۔۔۔ورنہ اکثر خاموش رہ کر صرف انکی گفتگو سنتے تھے ۔۔۔۔۔۔ اور انکی محفل سے اٹھنا نہیں چاہتے تھے ۔۔۔۔۔رات گئے سردیوں کی ٹھٹھرتی راتوں میں جب دیہات میں کچہریاں جمتیں اس وقت بھی میرے گاؤں کے سارے لوگ بابا جی کی گفتگو سنتے اور خود خاموش رہتے ۔۔۔یہاں تک گھڑیاں رات کے بارہ بجنے کا اعلان کردیتیں ۔۔۔ اور میرے باباجی خود اٹھ کر سونے کی تیاری کرنے لگتے ۔۔۔۔یا شاید وہ نوجوانوں کو خود موقع دیتے تھے کہ یہ لوگ میرے سامنے میرے احترام میں کچھ نہیں بولتے ۔۔۔شاید میرے جانے کے بعد یہ بھی کچھ دیر اپنا دل بہلا لیں ۔۔۔اور یہ سوچ کر وہ اٹھ جاتے ۔۔۔۔۔۔اور پھر انہیں 3بجے تہجد کیلئے بھی اٹھنا ہوتا تھا ۔۔۔۔جو ان کا معمول تھا ۔۔۔اور جسے میں بچپن سے دیکھتا ہوا آیا تھا ۔۔۔۔۔۔
اور مجھے یاد آیا ۔۔۔۔گاؤں میں جب کسی کی ولادت ہوتی ۔۔۔۔بچے کی ماں بچے کو باباجی کی گود میں ڈال دیتی اور پھر بابا جی اس بچے کو ڈھیرساری دعائیں دیتے ۔۔۔۔۔کوئی بچہ بیمار ہوتا ۔۔۔ کسی کا بخار نہ ٹوٹتا ۔۔۔تو وہ خاموشی سے پانی کی ایک بوتل بھر کر مسجد میں میرے با باجی کے قریب رکھ دیتے اور وہ نماز کے بعد دعا مانگ کر اس پر ایک پھونک مار دیتے ۔۔۔۔اور بچے بیماریوں سے تندرست ہو جاتے ۔۔۔۔۔
یہ میرے بابا جی تھے ۔۔۔۔ جنہیں میں نے گاؤں میں دیکھا تھا ۔۔۔۔۔جو مجھے بیٹا کہہ کر بلاتے تھے ۔۔۔۔ کتنی مٹھاس ہوتی ہے اس ایک لفظ ”بیٹا ” میں ۔۔۔
اور آج اس پارک میں ایک بابا جی میرے قریب بیٹھے تھے ۔۔۔انہوں نے بھی مجھے بیٹا کہا تھا ۔۔۔۔ مجھے کہاں سے کہاں پہنچا دیا تھا اس بابا جی نے ۔۔۔۔۔۔ جن کے ساتھ بظاہر میرا کوئی رشتہ نہ تھا ۔۔ کوئی ناطہ نہ تھا ۔۔۔ لیکن مجھے محبت دیکر ایک لمحے میں انہوں نے مجھے ایک نیا رشتہ عطا کیا تھا ۔۔۔لیکن اس بابا جی کے ساتھ تو کوئی بھی نہ تھا ۔۔۔۔۔۔۔ یہ اکیلا تھا ۔۔۔۔ تنہا تھا ۔۔۔۔ جنہیں اس نے زندگی کے گر سکھائے تھے ۔۔۔۔ جن پروں کو اس نے پھڑ پھڑانا سکھایا تھا ۔۔۔۔۔۔وہ پنچھی آج اڑان بھر چکے تھے ۔۔۔ امریکہ اور اور کینیڈا کی ڈالیوں پر بیٹھ کے میٹھے پھل کھا رہے تھے ۔۔۔۔اور اڑان سکھانے والا آج اس پارک کی بنچ پر تنہا خود اس جہاں سے اپنی اڑان بھر نے کی تیاری کر رہا تھا ۔۔۔۔۔۔
اور حساس دل رکھنے والا صحافی پھر سوچنے لگا کہ کتنے خود غرض ہو جاتے ہیں ہم لوگ ۔۔۔۔۔۔کتنے بے وقوف ہو جاتے ہیں ہم لوگ ۔۔۔۔۔کہ ہم قدم قدم انگلی پکڑکر چلنا سکھانے والوں کو اس عمر میں تنہا چھوڑ دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ یہ ڈگریاں ہمیں کتنا بے وقوف بناتی ہیں ۔۔۔۔۔ ہمارے ہاتھ میں ڈالر تھما کر ہم سے ہمارا پیار چھین لیتی ہیں ۔۔۔۔۔ہمارے اپنے ہم سے دور کر دیتی ہیں ۔۔۔۔۔ہمیں بیٹا کہنے والوں کو ہم سے جدا کردیتی ہیں ۔۔۔۔۔۔ہمارے اور انکے درمیان کتنی وسیع خلیج پیدا کر دیتی ہیں ۔۔۔۔۔۔
میرے سامنے بیٹھے بابا جی بی بھی شاید اپنے بچوں کے بچپن میں کھو گئے تھے ۔۔۔ اور میں نے محسوس کیا کہ انکی بوڑھی آنکھوں میں محبت اور تنہائی کے عذاب کے ستارے بیک وقت جھلملا رہے تھے ۔۔۔۔۔آنکھوں سے بہنے والے موتی انکی چاندی بھری ریش کو بھگو رہے تھے ۔۔۔۔
میں نے بات بدلنے کیلئے کہا کہ با با جی ۔۔۔۔کیا مصروفیات رہتی ہیں آپ کی سارا دن ۔۔۔۔؟
بابا جی بولے ۔۔بیٹا ۔۔۔ ہماری کیا مصروفیات ہونگی ۔۔۔ بس گھر کے کاٹھ کباڑ کی طرح کونے کھدروں میں دبکے رہتے ہیں ۔۔۔۔ انکے اس جملے میں گویا انکی پوری تنہائی ۔۔۔اور انکی زندگی بھر کا درد امڈ آیا تھا ۔۔۔۔۔۔ اور نومبر کی اس صبح پارک کی ا س بنچ پر بیٹھ کر میں سوچنے لگا کہ ہم انسان بھی کیسے ہر احساس سےعاری ہوتے جارہے ہیں ۔۔۔۔۔ہم اپنے چاہنے والوں کو کس طرح ان جانے میں تنہائیوں کا شکار کر رہے ہوتے ہیں
یہ بابے جب محفلوں میں ہوتے ہیں ۔۔۔ تو ہم نوجوان انہیں تنہا کر دیتے ہیں ۔ ۔۔۔۔نوجوان ان سے الگ ہوکر اپنی محفل الگ جماتے ہیں ۔۔ پھریہ بابے جب تنہائی میں ہوتے ہیں تو اپنی محفلیں آباد کرتے ہیں ۔ تنہائی انکی بہترین ساتھی اور بہترین دوست ہوتی ہے ۔آپ نے اکثر دیکھا ہوگا یہ لوگ محفلوں سے کتراتے ہیں ۔ کہتے ہیں بھائی آپ نوجوان لوگ گپ شپ لگائیں ہم چلے ۔۔۔ وہ دراصل تنہائی سے باتیں کرتے ہیں ۔ تنہائی ان سے باتیں کرتی ہے۔۔۔۔ اپنے بچپن کی باتیں ۔۔۔۔۔اپنی جوانی کی یادیں ۔۔۔۔۔یہ بابے لوگ محفلوں کے بجائے اپنی تنہائیوں کے گھر آباد کرتے ہیں ۔ یہ اپنی یادوں سے باتیں کرتے ہیں ۔۔۔۔۔اپنے احباب کوسوچتے ہیں۔۔۔۔ انکی سوچوں کو پڑھتے ہیں ۔۔۔۔۔ خاموش باتیں ۔۔۔۔۔ خاموش پڑھائی ۔۔۔۔۔یہ ان آوازوں کو سنتے ہیں جنہیں آپ ساؤنڈ لیس آوازیں یا خاموش آوازیں کہہ سکتے ہیں ۔۔۔۔
یہ جب زمانے کا تجزیہ اپنے تجربات سے کرتے ہیں ۔۔۔۔۔ پیش آئندہ مشکلات کو اپنے تجربے پر پرکھتے ہیں ۔۔۔۔۔تو۔۔ زمانے کے دئے گئے سبق کی بنیاد پر انکے فیصلے سو فیصد درست ثابت ہوتے ہیں ۔۔۔۔کیونکہ زمانہ ہی بہترین استاد ہے ۔۔۔یہ زندگی کے مصائب اور مشکلات سے نکلنے کا گر ہمیں سکھاتے ہیں ۔۔۔۔۔
اور یہی وہ سیکھنے کا عمل ہوتا ہے ۔۔۔۔جو ۔۔۔ان سے دور رہ کر ہم گنوا دیتے ہیں ۔۔۔ اس سیکھنے کے عمل سے ہماری دوری ہمیں محروم کر دیتی ہے ۔۔یہ جب اپنے تجربے ہم سے شیئر نہیں کر پاتے ۔۔۔اور جب یہ ہماری ہی دی گئی تنہائیوں کے باعث رخصت ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔ تو ہم وہ تجربہ دوبارہ کرنے لگتے ہیں۔۔ ۔۔۔پھر جب ٹھوکر کھا کر گرتے ہیں تو اس وقت ہمیں یہ بابے یاد آتے ہیں ۔۔۔

اس بینچ پر بیٹھے بابا جی اور میں ۔۔۔۔شاید دونوں کہیں کھو گئے تھے ۔۔۔۔ یا شاید ہمارے پاس بات کرنے کیلئے الفاظ کا ذخیرہ کم پڑگیا تھا ۔۔۔یا پھر شاید بابا جی اپنے بچپن میں ۔۔۔اور میں۔۔۔ زندگی کا موازنہ کرنے میں گم ہو گیا تھا ۔۔۔۔
میں سوچنے لگا کہ جب ہم مشترکہ خاندانی سسٹم میں رہتے تھے ۔۔۔تو ہماے بچوں کو ۔۔ نانا ۔۔ نانی ۔۔ دا دا اور دادی کی شکل میں محبتیں بانٹنے والے مل جاتے تھے ۔۔ جو ہمارے بچوں میں چاہتیں اور محبتیں بھر دیتے تھے ۔۔۔۔ یہ ہمارے بچوں کو محبت کرنا سکھا دیتے تھے ۔۔۔۔
آج ہم محبتوں سے خالی ہو رہے ہیں ۔۔ ہمارے معاشرے میں نفرت پھیل رہی ہے ۔۔۔۔شاید ہمارے حصے میں محبت آئی ہی نہیں ۔۔۔۔آج کی تیز رفتار ترقی اور مشینی دور نے ۔۔۔ہم سے محبتوں کے یہ گھروندے چھین لئے۔۔۔اور ہم ان سے کچھ بھی نہ لے پائے ۔۔۔اور ہم اندر سے کھو کھلے ہو گئے ۔۔۔۔ نفرتیں ہمارے رگ و پے میں سرایت کر گئیں ۔۔۔۔۔۔ اور نتیجتاً آج ہم اپنا گھر بھی نہیں بچا پاتے ۔۔۔۔۔۔آج بھی ۔۔۔صرف کراچی کی عدالتوں میں خلع کے دس ھزار سے زائد کیس فیصلے کے منتظر ہیں ۔۔۔اور ان میں روز بروزاضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔۔۔۔۔
میرے ذہن میں آیا جب خاندان مشترک تھے۔۔۔۔ تو یہ بابے لوگ اپنا سارا وقت بچوں کو دیکر انکی بہترین تربیت کرتے تھے ۔۔۔۔۔۔ تربیت وقت مانگتی ہے ۔۔ اور ہمارے یہ بزرگ اپنا وقت ہماری اولادوں کو دیتے تھے ۔۔۔۔۔اور آج جب خاندانی نطام ٹوٹنے لگا ہے ۔۔۔ہر پنچھی نے اڑان بھر کر اپنا الگ گھونسلہ بنا لیا ہے ۔۔۔۔الگ گھر بسا لیا ہے ۔۔۔۔۔میاں بھی دفتر میں اور بیوی بھی کام پر ۔۔۔۔کہ اسٹیٹس اونچا کرنے کے بھوت نے ۔۔۔۔۔ہمیں کہیں کا نہیں رہنے دیا ۔۔۔۔۔آج کے اس دور میں بچے پیار کیلئے ترستے ہیں ۔۔۔ ماں باپ تھکے ہارے گھر پہنچتے ہیں ۔۔۔۔تو بس بچوں کو سلانے ہی کی کوشش کرتے ہیں ۔۔۔۔ آج ہمارے بچوں کو گھوڑا بن کر اپنی پیٹھ پر سواری کرانے ولا کوئی بزرگ ہمارے گھر میں نہیں ۔۔۔۔ مشترکہ خاندان میں یہ بچے جب گھوڑے کی سواری کرکے گرتے تھے ۔۔۔تو ہمارے یہ بابے انہیں گر کر پھر کھڑے ہونے کا گر سکھاتے تھے ۔۔۔۔گر کر سنبھلنے کے راز اور نکتے سمجھاتے تھے ۔۔۔اور نتیجتاً یہ بچہ جب بڑا ہوتا ۔۔۔۔۔۔تو زندگی کے نا ہموار راستوں پر۔۔۔ یہ اپنے گھوڑے کو سرپٹ بھگا ئے جاتا ۔۔۔راستے کی کوئی رکاوٹ اسکی راہ میں حائل ہونے کی کوشش نہیں کرتی تھی ۔۔۔۔۔۔طوفان کے تھپیڑے زندگی کی ناؤ ڈبونے میں ناکام رہتے اور ہماری کشتی کنارے لگ جاتی ۔۔۔ کیوں کہ ہمارے بچوں کی تربیت ایسے ملاحوں نے کی ہوتی تھی ۔۔۔۔۔ جنہوں نے خود ان طوفانوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا ہوتا تھا ۔۔۔۔۔

اور اس صبح اس بنچ پر بیٹھ کر میں سوچنے لگا کہ ہم ہی بے وقوف ہیں ۔۔۔۔۔ جنہیں ہم بابے کہہ کر نا سمجھ اور ناکارہ سمجھتے ہیں ۔۔۔
ان بابے لوگوں کا ۔۔یہ بابا پن ۔ہی ۔۔ دراصل شعور و آگہی کی جوانی کا زمانہ ہو تا ہے ۔۔۔۔اس عمر میں پہنچ کر ان کا شعور پختہ ہو چکا ہوتا ہے ۔۔۔۔یہ عمل کی بھٹی سے گذر کر کندن بن چکے ہوتے ہیں ۔۔۔۔یہ اپنے آگے اپنی نسل کے ہر عمل کو اپنے تجربے پر پرکھتے ہیں ۔۔۔ان کا تجربہ انہیں کھرے اور کھوٹے ۔۔۔ سچے اور جھوٹے کی تمیز کراتا ہے ۔۔۔۔۔صحیح اور غلط کو ممیز کراتا ہے ۔۔۔کامیابی اور ناکامی کا فیصلہ کراتا ہے ۔۔۔تو آج اگر میری قوم کے نو جوان انکے تجربے کا فائدہ نہ اٹھا سکیں ۔۔۔ بھٹی مین کندن بننے والے کھرے انسانوں کو پہچان نہ پائیں ۔۔۔۔تو شاید ہم اپنے زمانے کے بے وقوف لوگ شمار کئے جائیں ۔۔۔
جنہیں ہم ناکارہ کاٹھ کباڑ سمجھ کر گھر کے ایک کونے میں پھینک دیتے ہیں ۔۔۔یہ بابے نو جوانوں کے لئے دعا گو ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔یہ ان کے لئے بلند منزلوں کی دعائیں کرتے ہیں ۔۔۔۔۔ایسی دعائیں جو انہیں ان کی جوانی میں کسی نے نہ دی ہوں ۔۔۔۔
یہ بابے ہمیں بہت کچھ دینا چاہتے ہیں ۔۔۔۔۔ہم لینا نہیں چاہتے ۔۔۔یہ ہمیں بہت کچھ سنانا چاہتے ہیں ۔۔۔۔ ہم سننا نہیں چاہتے ۔۔۔یہ ہمیں زندگی کے رموز سے آگاہی دینا چاہتے ہیں ۔۔۔اور ہم آگاہی لینا نہیں چاہتے۔۔۔۔یہ ہمیں زندگی کے گر بتانا چاہتے ہیں ۔۔۔۔۔ہم سیکھنا نہیں چاہتے ۔۔۔۔۔یہ ہمیں زندگی کے مصائب سے پنجہ آزمائی کرنے کا ہنر دینا چاہتے ہیں ۔۔۔اور ہم ہنر مند بننا نہیں چاہتے ۔۔۔۔۔
یہ لوگ زندگی کے اس سمندر میں ایک جزیرے کی مانند ہوتے ہیں ۔۔۔۔جسکے چاروں طرف سمندر کا ٹھاٹھیں مارتا پانی ۔۔۔ہر کسی کو دبوچنا چاہتا ہے ۔۔۔اور اس پانی میں وہ جزیرے کی مانند تنہا کھڑے ہوتےہیں ۔۔۔۔اس جزیرے تک پہنچنا آسان کام نہیں ۔۔۔۔۔۔اسکے لئے سمندر کو پار کرنا ہو گا ۔۔۔۔۔سمندر کی موجوں سے لڑنا ہو گا ۔۔۔۔۔۔ وہ موجیں جو ہمیں ان سے دور رکھنے کی کوشش کرتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
کبھی تنہائی کے لمحوں میں سوچنا ضرور ۔۔۔۔۔۔ جب یہ بابے نہیں ہوتے ۔۔۔۔تو ہمیں بیٹا کہنے ولا کوئی نہ ہو تا ۔۔۔۔۔ہمیں پیار سے پکارنے والا کوئی نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔ ہمیں ہمارے فرائض یاد دلانے والا کوئی نہیں ہو تا ۔۔۔۔ جب زندگی کے بھنور میں ہماری انگلی تھام کر ہماری نیا کو پار لگانے والا کوئی نہیں ہو تا ۔۔۔۔جب ہمیں ٹھوکریں کھا کر گرتے وقت ۔۔۔۔۔ سہارا دیکر ہمارے قدم بقدم چلنے والا کوئی نہیں ہو تا ۔۔۔۔ تب ہمیں یہ بابے یاد آتے ہیں ۔۔۔۔
آپ نےکبھی ان کھر درے ہاتھوں کا لمس محسوس کیا ہے ۔ جو بڑے سے بڑے صدمے میں بھی کس طرح آپ کی روح میں سکون بھر دیتے ہیں ۔ جن کی ہڈیوں پر مشتمل گود میں۔۔۔۔۔ آرام دہ بستروں سے ذیادہ سکون میسر ہوتا ہے ۔
کبھی غور کیا ہے جب آپ کو کوئی ڈانٹنے والا اس دنیا میں نہ رہے ، کوئی روکنے ٹوکنے ولا نہ ہو ۔۔۔۔۔ تو کیسا اکیلے پن ، اور تنہائی کا احساس گھیر لیتا ہے ۔ ۔۔۔۔بس یہی تو وہ لوگ ہیں جو آپ کو اس احساس سے بچاتے ہیں ۔

یہ بابے ہمارے گھروں کا سب سے قیمتی اثاثہ ہیں ۔۔۔یہ بابے ہمارا سرمایہ ہیں ۔۔۔۔یہ ہمارے خاندانوں کا تاج ہیں ۔۔۔۔۔۔۔یہ ہمارے معاشرے کیلئے متاع بے بہا ہیں ۔۔۔۔کہ انہیں کھو کر ۔۔۔ہم کبھی ان کی قیمت ادا نہیں کر سکتے ۔۔۔۔۔۔یہ لوگ آگاہ راز ہوتے ہیں ۔۔۔۔ہمارے جذبات میں گرمی پیدا کرتے ہیں ۔۔۔۔ ہمیں نئی منزلوں کی پہچان کراتے ہیں ۔۔۔۔۔یہ ہمارے لئے چراغ راہ کا کام کرتے ہیں ۔۔۔۔یہ ہمارے باطن میں چراغاں کرکے ہمیں منزلوں کی خبر دیتے ہیں ۔۔۔۔نشان منزل کا پتہ دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔یہ آشنائے راز ہو کر ہمیں مکاں و لا مکاں کے فرق سے آگاہ کرتے ہیں ۔۔۔۔۔ ایسے بابے معاشرے کیلئے چراغ راہ کا کام کرتے ہیں ۔ جو اپنے گردوپیش کو روشن رکھنے کیلئے دن رات جل جل کر اپنا جیون وار دیتے ہیں ۔
با نصیب ہیں وہ لوگ ! جن کو اپنے گھروں میں آج بھی چراغوں کی شکل میں ایسے بابے میسر ہیں۔ جو اپنے جگر کے لہو سے انہیں زندگی کے رموز سے آشنائی دیتے اور اپنے تجربات سے انہیں بصیرت عطا کرتے ہیں ۔ ۔۔۔۔ جو خود ساری خواہشیں اور چاہتیں تج کر بانٹنے کے عمل کو جاری رکھتے ہیں ۔ جو غیر محسوس طریقے سے زمانے سے حاصل کردہ اپنا فیض اپنی اگلی نسلوں کو منتقل کرتے ہیں ۔ ۔۔ ۔۔
یہ زندہ روحیں ہیں ۔۔۔۔جن کے رشتے ہماری روح سے وابستہ۔۔۔۔ اور جنکی سانسوں کی ڈور اور زندگی کی خوشیاں۔۔۔۔ ہماری روح کے دھاگوں سے بندھی ہوتی ہیں ۔ جو محبتوں کے خزانے اپنے وجدان میں چھپائے ہمارے ارد گرد ہم پر لٹانے کیلئے بے تاب رہتے ہیں ۔
جنہوں نے پوری زندگی ہمارے دکھوں کو اپنے اندر جذب کرتے کرتے ہمیں خوشیاں بہم پہنچانے کا سامان کیا ۔
یہ بابے ہمارے لئے گھنے پیڑ اور سایہ دار درخت کی طرح ہیں ۔ ایسے گھنے پیڑ جو ہمیں موسموں کی دست برد سے محفوظ رکھتے ہیں ۔ ایسے سائبان جو گرمی میں ٹھنڈک اور ٹھنڈ میں ہمیں گرمی کا احساس دلاتے ہیں ۔ ہمیں موسموں کے مضر اثرات سے بچاتے ہیں ۔ میں بھی شاید گرم موسموں کا جھلسایا ہوا ۔۔۔۔ آج اس شجر سایہ دار کے نیچے بیٹھا تھا ۔۔۔۔جس کی ٹھنڈی چھاوں نے گویا میرے انگ انگ میں سکون بھر دیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جس نے مجھے گویا اپنی خاموش آواز سے ۔۔۔۔ زمانے کا سب سے مشکل سبق یاد کرا دیا تھا ۔۔۔۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے