یاسر خان نے خاتون سے ہاتھ نہیں ملایا اور. . .

یہ یاسر خان ہیں، سویڈن کی حکمران گرین پارٹی سے تعلق رکھنے والے 30 سالہ مسلم سیاستدان –

عین اس وقت جب یہاں ہمارے کچھ دوست مرد و عورت کے مصافحے کے جواز یا استاذ کے دفاع پر زور صرف کر رہے تھے، یاسرخان نے ایک ٹی وی انٹرویو میں خاتون صحافی کے ساتھ ہاتھ ملانے انکار کر دیا، خاتون ہاتھ لیے کھڑی رہ گئی اور وہ سینے پر ہاتھ رکھے ‘ ٹس سے مس’ نہ ہوئے۔ سویڈن کا میڈیا اور حزب اختلاف اس نوجوان پر چڑھ دوڑے، اس عمل کو عورت کی توہین قرار دیا اور کہا کہ جہاں مرد کی مرد اور عورت سے عورت کے ساتھ شادی کی اجازت ہے، ایسے آزاد معاشرے میں اس طرح کے انکار کی اجازت نہیں دی جا سکتی، یہ ان اقدار کو خطرے میں ڈالنے والی بات ہے۔ بات اتنی آگے بڑھی کہ سویڈش وزیراعظم کو بیان دینا پڑا کہ ” تمھیں مرد و عورت ، دونوں سے ہاتھ ملانا پڑے گا۔” جوابا یاسر خان جو گرین پارٹی کے سنٹرل ایگزیکٹو بورڈ کی رکنیت کے امیدوار تھے، نہ صرف اس امیدواریت سے دستبردار ہو گئے بلکہ پارٹی کے ریجنل بورڈ اور سٹی کونسل کی رکنیت بھی چھوڑ دی اور پھر سیاست کو ہی خیرباد کہہ دیا کہ وہ اس پر کمپرومائز نہیں کر سکتے۔ جب اس پر اسلامسٹ ہونے کی پھبتی کسی گئی تو جوابا یاسرخان نے کہا کہ اگر اسلامسٹ سے مراد باعمل مسلمان (practising Muslim) کی ہے تو وہ اسلامسٹ ہیں اور اگر اس سے مراد دہشت گردی ہے تو وہ اس سے اتنے ہی دور ہیں جتنا کوئی اور مغربی باشندہ ۔

سبحان اللہ کس ملک اور کس ماحول میں یاسرخان نے ثابت قدمی دکھائی ہے۔ ایسے واقعات ہوتے ہیں جنھیں پڑھ کر بندے کا ایمان تازہ ہو جاتا ہے۔ یہ خبر رات دیکھی تھی اور تب سے سوچ رہا ہوں کہ کیوں یاسرخان کو ‘ مسلم تاریخ’ اور ‘لونڈیوں’ کی بحث سے اٹے فقہی ذخیرے سے واقفیت ہو سکی نہ جواز کا فتوی ہی اس تک پہنچ سکا ورنہ مساوت مرد و زن سے بھرے اور ” جدید لونڈی خانے” جیسے معاشرے میں ایک ہاتھ ملانے سے کیا ہونا تھا یا کسی نے اس پر کیا اعتراض کرنا تھا۔ اس لڑکی کا کہا جملہ یاد آتا ہے کہ ” عمر رض نہیں دیکھ رہے تو کیا ہوا، ہمارا اللہ تو سب دیکھ رہا ہے۔”

یاسر خان کے ساتھ جو معاملہ پیش آیا ہے، اس سے آزادی کی ملمع کاری کا پردہ بھی چاک ہو گیا ہے اور سیکولرزم کی اس دلیل کا بھی کہ مذہب فرد کا ذاتی معاملہ ہے اور معاشرے یا ریاست کو اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ وزیراعظم سے لے کر سویڈش حزب اختلاف اور میڈیا تک اس شخصی آزادی کے خلاف چلا اٹھے ہیں، ایک انکار سے ساری روادری بیچ چوراہے ٹوٹ پھوٹ گئی ہے اور آزادی کہیں دور منہ چھپائے حیران و پریشان کھڑی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے