حیدرآباد لٹریچر فیسٹیول

اپنے دل پر لکھ لو کہ گزرتا ہوا ہر دن سال کا بہترین دن ہے۔
رالف والڈو ایمرسن کے الفاظ ہمیشہ مجھے ہر لمحے کے قیمتی ہونے کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔ ہر دن اپنے اندر تخلیق کا ہنر رکھتا ہے اور پھر اگر شہر ایسا ہو کہ ہر نئے موسم کی مہک سے سرشار بے ساختہ ہوائیں روح تک کو مہکانے لگیں، تو موسموں کا تخلیقی ہنر مکینوں کے ذہنوں پر بھی دستک دینے لگتا ہے۔
حیدرآباد ایک ایسا شہر ہے، جو فن و فکر و ادبی سرگرمیوں کا ہمیشہ مرکز رہتا ہے، لیکن اس بار جب حیدرآباد لٹریچر فیسٹیول کی بازگشت سنائی دی تو ہر طرف زندگی کی لہر دوڑ گئی، لیکن اس فیسٹیول سے پہلے ’’خانہ بدوش‘‘ تنظیم کی فعال اراکین نے، آٹھ دنوں پر مشتمل شیخ ایاز میلے کا انعقاد کیا تھا۔ جو ایک کامیاب کوشش تھی۔
حیدرآباد فیسٹیول کے پہلے دن افتتاحی تقریب کے روح رواں امرجلیل تھے۔ ایک طویل عرصے کے بعد اہل حیدرآباد نے اپنے انتہائی معتبر ادیب کو قریب سے دیکھا۔ نوجوانوں کا تجسس اور اشتیاق قابل دید تھا۔ جو امرجلیل کو اپنا فکری رہبر سمجھتے ہیں۔ سینئر ادیبہ ماہتاب محبوب، امرجلیل سے لائف اچیومنٹ ایوارڈ لیتے ہوئے آبدیدہ ہو گئیں۔ انھیں خوشی اس بات کی تھی کہ وہ امرجلیل سے یہ ایوارڈ وصول کر رہی ہیں۔ عرفانہ ملاح نے امر جلیل سے خوبصورت سوال پوچھے جن کا جواب وہ متانت سے دیتے رہے۔
آپ دانش کدے میں جا بیٹھیں تو ہر لمحہ خیال کے خوبصورت پھولوں سے مہکنے لگتا ہے۔ پہلے دن ترتیب دیے جانے والے پروگرامز میں حیدرآباد کل اور آج، مزاحمتی ادب، بچوں کا ادب، شاعر اور شاعری وغیرہ شامل تھے۔ سندھی کے مایہ ناز ادیب، محقق، ناول نگار آغا سلیم کا پچھلے دنوں انتقال ہو گیا۔ آغا سلیم نے شاہ لطیف کا اردو میں ترجمہ کیا تھا۔ سندھی ادب کے حوالے سے ان کی گراں قدر خدمات ہیں۔ ان کے فن اور خدمات کے حوالے سے معلوماتی نشست میں جامی چانڈیو اور نصیر مرزا نے ان کی شخصیت اور فن و فکر پر روشنی ڈالی۔
سندھی ادب میں ہر مہینے دس سے پندرہ کتابیں منظرعام پر آتی ہیں۔ یہ کتابیں تاریخ، ثقافت، تحقیق، ناول، کہانی و شاعری سے لے کر مختلف موضوعات پر مشتمل ہیں۔ کتابوں کی رونمائی میں منظور تھیم، شبنم گل، مہران ایوب کے ناول اور عبدالحئی پلیجو کا سفر نامہ شامل تھا۔
سندھی تحقیقی ادب پر اگر بات کی جائے تو، سندھ کے کافی شہروں پر معلوماتی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ سندھ کی نہریں اور دریا، تھر، ثقافتی ورثے پر نایاب کتب دستیاب ہیں۔ سندھ کے آثار قدیمہ کے حوالے سے بھی بے شمار کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ دوسرے دن قدیم آثار کے موضوع پر پروگرام میں آثار قدیمہ کے ماہرین اشتیاق انصاری اور حاکم علی شاہ بخاری شریک گفتگو تھے۔ اسی شعبے سے وابستہ نسیم جلبانی نے موضوع کی مناسبت سے بامعنی سوالات کیے۔
اس گفتگو کا حاصل یہ تھا کہ آثار قدیمہ جیسے اہم شعبے پر قابل اور آثار قدیمہ کا علم رکھنے والے لوگوں کی تقرریاں ہونی چاہئیں۔ اہم عہدوں پر لاعلم اور سفارشی لوگوں کو لانے کا سلسلہ بند کیا جائے۔ آرکیالوجی حساس شعبہ ہے۔ جسے انتہائی نگہداشت اور نظرداری کی ضرورت ہے۔ مقررین کا کہنا تھا کہ آثار قدیمہ کی تعمیر نو میں قدیم عمارت سازی کا حسن برقرار رکھنا چاہیے۔سندھ میں برطانوی راج کے موضوع پر مقررین ڈاکٹر حمیدہ کھوڑو، انعام شیخ و دیگر شریک گفتگو ماہرین نے موضوع پر مہارت سے روشنی ڈالی۔ یہ نشست فکری لحاظ سے بھرپور رہی۔
سندھی سفرنامے کے پروگرام میں ڈاکٹر اسحاق انصاری، الطاف شیخ اور ڈاکٹر مشتاق ھل شریک گفتگو رہے۔ الطاف شیخ نے سندھی میں لاتعداد سفرنامے تحریر کیے ہیں۔ سفرنامے کے حوالے سے الطاف شیخ کا حصہ بھرپور ہے کہ انھوں نے سندھ کے نوجوانوں میں سفر کرنے کی جستجو پیدا کی اور ایک کھڑکی بیرون دنیا کی کھول دی۔
اسی دن مشاعرے کی نشست بھی بھرپور رہی۔ اس پروگرام کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں نوجوانوں نے بھرپور حصہ لیا بلکہ ہر دن نئی نسل کی شمولیت قابل تحسین تھی۔ تخلیق کار دور دراز سے اپنے احساس کا گلدستہ لائے تھے۔ ذہن و روح سبزہ زار بنے ہوئے تھے۔ یہ ذہن میں خیال کا بیج بوتے ہیں۔ ایک ہی خیال کافی ہوتا ہے جو ایک دن پودے سے سایہ دار درخت بنتا ہے۔ آخری دن کی نشست میں جدید سندھی ادب کا تنقیدی جائزہ، سندھی ڈرامہ، تراجم، ناول اور کہانی پر مباحثہ، واٹر اکانومی، کتاب اور پبلشر، شاہ لطیف اور شیخ ایاز کے فن پر گفتگو معلوماتی رہی۔
مختلف نشستوں میں اجمل کمال، افضال احمد، ولیرام ولبھ، عذرا عباس، عمر قاضی، آغا ظفر، نوراحمد جھنجی، زیب سندھی، روبینہ ابڑو، ڈاکٹر عرفانہ ملاح، رخسانہ پریت، عشرت علی خان و دیگر شامل تھے۔ادبی لٹریچر فیسٹیول ہر بڑے شہر میں منعقد کیے جاتے ہیں۔ جن میں پروگرامز کی بھرمار ہوتی ہے۔ ایک ہی وقت میں تین یا چار پروگرام چل رہے ہوتے ہیں۔ اکثر پروگرام آپ نہیں دیکھ پاتے کیونکہ ایک وقت میں ایک ہی پروگرام میں شامل ہوا جا سکتا ہے۔ ہر نشست کا وقت ایک سے ڈیڑھ گھنٹے تک کا ہوتا ہے۔
بعض اوقات موضوع اور مقررین تشنہ رہ جاتے ہیں۔ تین دن میں اکثر چالیس یا اس سے زائد پروگرام ترتیب دیے جاتے ہیں۔ ہم معیار سے زیادہ مقدار کا سوچتے ہیں۔ قناعت کا جوہر ہم کب کا کھو چکے۔ کثرت میں دل کا سکون ڈھونڈتے ہیں ۔
شور برپا ہے خانہ دل میں
کوئی دیوار سی گری ہے ابھی
یہ بھی ممکن ہے کہ نشستوں کی تعداد کم کر کے ہر نشست کا دورانیہ بڑھا دیا جائے۔ آج کل ادبی پروگرامز میں یہ رجحان زیادہ ہے کہ پورا مقالہ لکھ کر آئیں۔ جب کہ سات یا دس منٹ میں اس کا خلاصہ بیان کرنا ہو گا۔ ماضی کے پروگرام یاد ہیں جب مقرر دل کی بات مکمل طور پر کہہ کے رخصت ہوتے تھے اور سننے والا طویل عرصے تک ان الفاظ کے سحر میں کھویا رہتا۔ وہ الفاظ ضایع نہیں ہوتے تھے بلکہ اپنے اندر تاثیر کا سلیقہ رکھتے۔
حیدرآباد کا یہ ادبی میلہ اپنی نوعیت کا پہلا و منفرد پروگرام ہے جو خوبصورت محفل موسیقی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ اس محفل میں برکت علی، رفیق فقیر، مظہر حسین، بیدل مسرور و دیگر گلوکاروں نے فن کا جادو جگایا۔ حیدرآباد لٹریچر فیسٹیول کے منتظمین قابل تحسین ہیں۔ جن کی محنت اور رت جگے کامیاب ہوئے۔ یہ حقیقت ہے کہ گزرتا ہوا ہر پل، وقت کے سفر میں تعمیری اثر رکھتا ہے۔
ہماری ذات پر منحصر ہے کہ احساس کو نکھارنے کے لیے ہم کن لمحوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ چینی کہاوت ہے کہ خوفزدہ مت ہونا کہ تم آہستگی سے ابھر رہے ہو، مگر اپنے غیر متحرک ہونے سے ڈرتے رہنا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے