3 سالہ بجٹ فریم ورک منظور، 100 ارب کے نئے ٹیکس لگانے کی تجویز

اسلام آباد: وفاقی کابینہ نے آئندہ مالی سال 2016-17 کے وفاقی بجٹ کے ابتدائی خدوخال اور اگلے 3 سالہ میڈیم ٹرم بجٹری فریم ورک کی منظوری دے دی، آئندہ مالی سال کے لیے دفاعی بجٹ 860 ارب پی ایس ڈی پی کا حجم 800 ارب، ٹیکس وصولیوں کا ہدف 3735 ارب روپے مقررکرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

قرضوں پرسودکی ادائیگی کے لیے 1354 ارب، پنشن کی ادائیگی کے لیے 245 ارب، وفاقی حکومت کے سروس ڈلیوری اخراجات کے لیے 348 ارب، سبسڈیز کے لیے 169 ارب، صوبوں کو گرانٹس کی ادائیگی کے لیے 40 ارب اوردیگرگرانٹس کی مد میں 542 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز زیر غور ہے، بجٹ میں 100 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کی تجویز بھی ہے جبکہ یہ ٹیکس مختلف ٹیکس چھوٹ ختم ہونے پر عائد ہوںگے۔

’’ایکسپریس‘‘ کے مطابق وفاقی کابینہ کی جانب سے منظور کیے جانے والے آئندہ مالی سال کے بجٹ اسٹریٹجی پیپرمیں مالیاتی خسارے کا ہدف 3.8 فیصد اور ٹیکس وصولیوں کا ہدف 3735 ارب روپے مقرر کرنے کی تجویز دی گئی ہے جو کہ رواں مالی سال کے مقابلہ میں 20.3 فیصد زیادہ ہیں، حکومت آمدہ بجٹ میں سماجی تحفظ کے پروگرام، نوجوانوں کے لیے اقدامات، کسانوں اور معیشت کے دوسرے شعبوں کے لیے خصوصی اقدامات اٹھائے گی۔

پی ایس ڈی پی کے تحت آئندہ مالی سال کیلئے ترقیاتی بجٹ 14.3فیصد بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، ترقیاتی بجٹ میں توانائی، قومی سلامتی، ٹی ڈی پیز کی بحالی و ریلیف کے منصوبوں پر توجہ دی جائے گی، اقتصادی راہداری کی تعمیر و ترقی، ریلویز نیٹ ورک، واٹرسیکٹراورتخفیف غربت پربھی فوکس کیا جائے گا۔ حکام کے مطابق کابینہ کو یہ بھی بتایا گیا کہ چائنیزکونسل نے ساڑھے 4 ارب ڈالر کی منظوری دے دی ہے جس سے سکھر ملتان موٹروے اور حویلیاں تھاکوٹ موٹروے تعمیر کی جائے گی۔

میڈیم ٹرم بجٹری فریم ورک کے مسودے کے تحت آئندہ مالی سال کے لیے جی ڈی پی گروتھ کا ہدف 6.2 فیصد، انویسٹمنٹ ٹو جی ڈی پی کی شرح کا ہدف 18.7 فیصد، مہنگائی کی شرح کا ہدف 6 فیصد، ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح کا ہدف 12.7 فیصد، جی ڈی پی کے لحاظ سے قرضوںکی شرح کا ہدف 59.4 فیصد، زرمبادلہ کے ذخائر کا ہدف 23.6 ارب ڈالر مقرر کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔

مالی سال 2017-18 کے لیے دفاعی بجٹ 946 ارب، قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لیے1465 ارب، پنشن کی ادائیگی کے لیے 265 ارب، وفاقی حکومت کے سروس ڈلیوری کے اخراجات کیلیے 369 ارب، سبسڈیز کے لیے 140 ارب، صوبوں کو گرانٹس کی ادائیگی کے لیے 40 ارب اور دیگر گرانٹس کی مد میں 550ارب روپے مختص کرنے کی تجویز زیرغور ہے جبکہ بجٹ خسارے کا ہدف 3.5 فیصد مقرر کرنے کی تجویز دی گئی ہے، پی ایس ڈی پی کا حجم 950 ارب روپے مقرر کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔

مالی سال 2018-19 کے لیے دفاعی بجٹ 1041ارب، قرضوں پر سودکی ادائیگی کے لیے1564 ارب، پنشن کی ادائیگی کے لیے 286ارب، وفاقی حکومت کے سروس ڈلیوری کے اخراجات کے لیے 391ارب، سبسڈیز کے لیے100 ارب، صوبوں کو گرانٹس کی ادائیگی کے لیے 40ارب اور دیگر گرانٹس کی مد میں 560 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز زیرغور ہے، جی ڈی پی گروتھ کا ہدف 7.5فیصد، انویسٹمنٹ ٹو جی ڈی پی کی شرح کا ہدف 22.2 فیصد، مہنگائی کی شرح کا ہدف 6 فیصد، ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح کا ہدف13.7 فیصد، جی ڈی پی کے لحاظ سے قرضوں کی شرح کا ہدف 55 فیصد، زرمبادلہ کے ذخائر کا ہدف 30 ارب ڈالر مقرر کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔

پی ایس ڈی پی کا حجم 1080ارب روپے مقرر کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔ آن لائن کے مطابق کابینہ کو بتایا آئندہ مالی سال کے بجٹ میں سپرٹیکس متعارف کرایا جارہا ہے جو صرف سالانہ 50 کروڑ روپے سے زیادہ کمانے والوں پر لاگو اور یہ ٹیکس شمالی وزیرستان کے ٹی ڈی پیزکی بحالی پر خرچ ہو گا۔

وفاقی کابینہ نے آئندہ مالی سال کے بجٹ فریم ورک کی منظوری دیتے ہوئے اسٹرکچرل استعداد بڑھائے بغیراقتصادی نمو کا ہدف 6.2 فیصد اور بجٹ خسارے کا ہدف صرف 1.32 ٹریلین تجویز کیا ہے جس سے اس نئی پالیسی میں تضادات کی نشاندہی ہوتی ہے۔ آئندہ مالی سال کا بجٹ وزیرخزانہ اسحق ڈار 3 جون کو پیش کریںگے جس کا حجم 4.4 ٹریلین کے لگ بھگ متوقع ہے۔

بجٹ فریم ورک میں ٹیکس وصولیوں کا ہدف 3735 بلین رکھا گیا ہے جو موجودہ مالی سال کے مقررکردہ 631 بلین کے مقابلے میں 20.3 فیصد زیادہ اور خواہشات پر مبنی ہے۔ نئے مالی سال کے لیے مہنگائی کا ہدف 6 فیصد رکھا گیا ہے جبکہ سرمایہ کاری کا ہدف جی ڈی پی کے 18.7 فیصد رکھا گیا اور یہ بھی خواہشات پر مبنی ہے کیونکہ اخراجات پر کڑی شرائط کے باعث پبلک انوسٹمنٹ مجوزہ سطح سے کم رہے گی۔ اسی طرح عالمی مالیاتی اداروں کے تخمینوں کے برعکس معاشی نمو اور سرمایہ کاری کے اہداف بھی بہت زیادہ رکھے گئے ہیں۔
3.8 فیصد یا 1.32 ٹریلین بجٹ خسارہ آئی ایم ایف کی اب تک کی نشاندہی کے برعکس 104 بلین یا 0.3 فیصد زیادہ ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے تخمینوں سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کی معاشی نمو 4.8 فیصد رہے گی جو کابینہ کے منظور کردہ 6.2 فیصد ہدف سے زیادہ ہے۔ بجٹ فریم ورک کی منظوری کی روایتی نقص کے سبب پچھلے 3 بجٹوں کی طرح اس بار بھی بڑے میکرو اکنامک اہداف حاصل نہیں ہوسکیںگے۔ وزارت خزانہ نے بھی کابینہ کو آگاہ کیا کہ ختم ہونے والے مالی سال میں اقتصادی نمو کا 5.5 فیصد ہدف حاصل نہ ہوسکے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے