جمہوریت کے غیر جمہوری محافظ

یہ خلیفہ ء دوم حضرت عمرفاروقؓ کا دور تھا۔مسلمان فتح کے بعد مالِ غنیمت تقسیم کر چکے تھے۔حضرت عمر فاروقؓ مسجد میں خطبہ دے رہے تھے۔کہ ایک صحابیء رسول نے سوال اُٹھایاکہ اے امیر المومنین!مالِ غنیمت میں جو کپڑا ہمارے حصے میں آیا اس سے ہمارا کرتا نہیں بن سکتا او ر آپ نے نیا کرتہ اسی کپڑے کا پہنا ہے ؟؟ اس پر حضرت عمر نے وضاحت کی کہ میرا کرتہ دو حصوں سے بنا ہے ایک میرا اور ایک میرے بیٹے کا حصہ۔ اور ہاں وہ منظر جب اسی عمرؓ نے اپنے پہلے عوامی خطبے میں بھرے مجمعے میں ایک صحابی سے یہ سنا
؛؛ اے عمرؓ مت بھولو کہ تمھیں اسلام نے عزت بخشی ورنہ تمھارا حال یہ تھاکہ بکریاں چراتے تھے۔تمہارا باپ اس پر پریشان تھاکہ تم زندگی کیسے گزاروگے۔ اب تم نے اگر عدل کیاتو ہم تمھاری اطاعت کریں گے ورنہ تلوار کی کمند کی طرح سیدھا کردیں گے۔

عہدِ رفتہ کے یہ تابندہ اور درخشندہ لازاوال نقوشِ عدل و جمہوریت ذہن کے دریچوں میں ہوا کے لطیف جھونکوں کی طرح سوچ و فکر کی دنیا کو اپنی عطر بیزی سے معطر کر تی ہوئی موجودہ حالات پر حسرت و یاس کا بھر پور سامانِ ماتم فراہم کرتی ہیں ۔کہ جب پانامہ لیکس کی حشر انگیزیاں اور اس سے جڑا پاکستانی وزیرِ اعظم کا خاندان زبانِ خاص و عام ہے ۔ ملک کے سب سے بڑے رہنما کے عدل و دیانت پر سوال اُٹھ رہے ہیں ۔ اورجمہور اس غیبی طاقت کا پتہ لگانے میں سر گرداں ہے جسنے میاں صاحب کے صاحب زادوں پرمہربانیوں کے دروازے کھول کر مالا مال کردیا۔اے کاش! ایسے غیبی ہاتھ کی کچھ مہربانیاں پاکستان کے پِسے ہوئے عوام پر بھی ہوں۔

ایک وہ جمہوریت کے علمبردار تھے۔جنکے نام سے ایک طرف کفر کانپتا تھا تو دوسرے طرف بھرے مجمع میں ایک عام فرد کے سوال کا جواب دینا اپنی ذمہ داری سمجھی۔ اور ایکطرف یہ جمہوریت نواز جنکے سامنے پوری قوم سراپا احتجاج، مگر قوم کے سوالوں کا جواب دینے کی بجائے کمیشنوں کے گورکھ دھندوں کا جھانسا دیکر خود اپنی مشکوک آمدنی کے تحفظ کے لئے اس در کا سلام کرنے چلے جو کبھی انکی اور انکے بھائی کی نظر میں کرپشن اور ملکی دولت لوٹنے والوں کا سب سے بڑا مسکن تھا۔

جمہوریت کی تعریف دنیائے عالم کی نظروں سے پڑھو تو بنیادی نقطوں میں یہ دو سرِ فہرست نظر آتے ہیں
کہ حکومت جمہور کی مِلک ہے وہ ذاتی یا خاندانی مِلک نہیں
اورتمام اہلِ مُلک ہر قسم کے حقوق و قانون میں مساوی ہیں۔
ان نقطوں پر دنیائے عالم میں بطریقہء اتم اگر کوئی حکومت پوری اتری تو وہ خلفاء راشدین کی حکومت تھی بقول انگریز قانون دان آرمننس وان میری ؛؛ کائناتِ عالم میں اسلام ہی یک ایسا مذہب ہے جسے ڈیموکریسی کی بنیاد پر امتیاز اور فوقیت حاصل ہے۔انسان کی عمرانی تاریخ میں آج تک اگر کوئی صحیح جمہوری حکومت قائم ہوئی ہے تو بقسم یہ کہنا درست ہوگا کہ وہ خلفاء راشدین کی خلافتِ راشدہ تھی۔؛؛
انہی بنیادی نقطوں کو لے کر انقلابِ فرانس آیا۔ اور کسی حد تک یورپ نے جمہوریت کے اس نظرے کو عملی شکل دینے کی حتی الامکان کوشش کی۔

لیکن پاکستان میں جمہوریت کا راگ الاپنے والے شائد جمہوریت کے ان بنیادی نقطوں سے نالاں اور باغی نظر آتے ہیں۔دو بڑی جماعتوں نے جمہوریت کے مقدس نام کی شکل مسخ کرکے اسے خاندانوں اور افراد کے تابع بنا دیا۔شاید جمہوریت کی تعریف پاکستان میں کچھ یوں ہوتی ہے۔
کہ حکومت جمہور کی نہیں بلکہ جمہور پر مسلط خاندانوں کی مِلک ہے۔
اورقانون صرف جمہور کے لئے اور حقوق صرف مسلط اور غاصب خاندانوں کے لئے ہیں۔

یہی تعریف ہمیں سوئس اکاؤنٹس کی چھان بین کے وقت نظر آئی اور یہی مظاہرہ ہمیں پانامہ لیکس کے بعد اٹھنے والے شور و غُل کے وقت نظر آتا ہے۔پاکستان میں جمہوریت اسی اشرافیہ کے تسلط کا نام ہے۔ جمہوریت کی خدمت دراصل ان خاندانوں کی غلامی اور عبدیت میں ہے۔ جیسے کہ آج کل وزیرِ اعظم کے خاندان پر ذاتی نوعیت کے اُٹھنے والے سوالوں کی سیاہی دھونے میں پوری حکومتی مشینری لگی ہوئی ہے۔جمہوریت کا حسن ان طالع آزماؤں کی خوشی اور مطلق العنان حکومتی روش ہے۔ اور ان کے مفادات پر پڑھنے والی ادنی خراش بھی جمہوریت کے خلاف گہری سازش اورقومی سانحے سے کم نہیں۔اور جس سے جمہوریت کے وجود پر خطروں کے سیاہ بادل منڈ لانے میں دیر نہیں لگتی۔

پانامہ لیکس کے مرکزی کردار قوم کے سامنے اپنا اور خاندانکا کردار کیوں نہیں رکھتے؟؟ کہ انکی زندگی قوم و ملک کی امانت اور مقروض ہے۔اپنے خاندان کو آبِ زمزم سے دہونے کے چکر میں ملک کے حکمران۲۰۰ میں سے اپنے خاندان کے علاوہ باقی لوگوں سے شاید یہ پوچھنا بھی بھول گئے کہ ملک میں ہر قسم کی آزادی کے باجود اپنے اثاثے دوسرے ملک منتقل کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟؟انکو یہ ہوش ہی نہی۔کہ انکے اپنے دامن داغدار ہیں کسی اور کو کہنے کا ہوش کیسے ہو۔

اور نہ ہی حزبِ اختلاف میں بیٹھے جمہوریت پسندوں کو وزیرِ اعظم کے سوا کسی اور ملکی و قومی چور کی فکر ہے۔ کیونکہ ان سے سرِ دست حکومت ملنے یا نہ ملنے کا کوئی تعلق نہیں۔بخدا وزیرِ اعظم کے علاوہ باقی آف شور کمپنیوں کے مالکوں میں کوئی ملک دشمن، قومی دولت لوٹنے والا نہیں؟؟؟ یا یہ کہ انکو ٹارگٹ کرنا حکو مت گِرانے میں مددگار ثابت نہیں ہوگا؟؟؟قوم کے ساتھ اس سے بھی بڑا مذاق کہ پانامہ لیکس کے مطابق سب سے زیادہ کمپنیوں کے مالک اب حزبِ اختلاف کے اس جماعت کا حصہ بننے کے لئے پر تول رہے ہیں جو موجودہ حکومت کو پانامہ لیکس کے نتیجے میں قوم کا سب سے بڑا مجرم مانتی ہے۔

جمہوریت اور عوامی خدمت کی آڑ میں انا پرستی اور ذاتی مفادات کی جنگ ہے۔ جمہوریت کے حفاظت کی قسمیں اور وعدے مگر ہتھکنڈے سارے غیر جمہوری۔جمہوریت کو ڈی ریل نہ ہونے دینے کے لئے بلند و بانگ دعوے،لیکن اپنے گھر اور اپنے اندر جمہوریت کا شائبہ تک نہیں۔آمر اور ڈکٹیٹر کے خلاف قوم کے جذبات ابھارنے والے خود اپنی جماعتوں میں ڈکٹیٹرشپ کے بڑے علمبردار۔یہ وہ عذابِ الٰہی ہے۔ جنکوآئین کے وہ سارے دفعات یاد ہیں جہاں انکے مفادات کا تحفظ ہو۔ اور ان کے خلاف اگر کوئی پر بھی مارے تو جمہوریت خطرے میں لیکن جب حوا کی بیٹی سرِ عام لٹتی ہے۔جب ملک کا مزدور اور محنت کش غربت سے خود کشی کرتا ہے۔جب معاشرے کا ایک عام آدمی عدالت کے باہر انصاف کی آس لے کر ساری عمر کاٹ دیتا ہے۔جب ظلم و بر بریت اپنے ہوس اور حیوانیت کا ننگا ناچ غریب کے لاش پر ناچتی ہوئی معاشرے کی بنیادیں ہلاتی ہے ۔ تو وہاں نہ تو جمہوریت خطرے میں ہوتی ہے اور ن ہی ملک کا دستور اوآئین پامال ہوتا ہے۔کیونکہ انکے لئے جمہوریت ان کے نام اور خاندان سے شروع اور انکے نام سے ہے ختم ہوتی ہے۔ ایسے میں بے اختیار ساحر لدھیانوی کا شعر تھوڑی تبدیلی کے ساتھ یوں زبان پر آتا ہے۔

ثنا خوانِ تقدیسِ ملت کہاں ہیں؟؟؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے