معراج النبیﷺ

پندرواں پارہ شروع ہوتا ہے سورہ بنی اسرائیل ہے اس کے شروع میں بنی اسرائیل کے بڑے اہم واقعات کا ذکر آیا ہے اس لیے اسے بنی اسرائیل بھی کہتے ہیں اور اس کے ابتداءمیں ہی نبی کریم ﷺ کے سفرِ معراج کا ذکر ہے۔ اس لیے اسے سورہ اسرا ءبھی کہتے ہیں ۔ مکہ مکرمہ میں نازل ہونے والی سورتوں میں سے ہے۔فرمایا پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو رات میں سیر کرائی مسجد احرام سے مسجد اقصیٰ تک وہ مسجد اقصیٰ جس کے گردا گرد ہم نے بہت برکتیں رکھیں ہیں تا کہ انہیں اپنی قدرت کی نشانیاں دکھائیں بیشک وہی اللہ سننے دیکھنے والا ہے۔ واقعہ معراج شریف ہجرت سے کم وبیش تین سال پہلے نبوت کے دسویں سال پیش آیا۔مختصراً واقعہ یوں ہے کہ نبی کریم ﷺ کو جب کہ آپ آرام فرما رہے تھے رات میں جبرائیل امین نے اُٹھایااور جنت کی سواری ساتھ لائے جسے براق کہتے ہیں حضور ﷺ بیت اللہ تشریف لے گئے اور وہاں سے براق پر بیٹھ کر بیت المقد س تشریف لے گئے اس سفر کو اسراءاس لیے کہا گیا ہے کہ یہ شب بھر کا راتوں رات کا ہی سارا سفر تھا اس لیے اس سفر کو اسراءکہتے ہیں۔

بیت المقدس میں حضور اکرم ﷺ نے دو رکعت ادا فرمائیں تمام انبیاءاکرام کو وہاں لایا گیا اورحضور ﷺ نے تمام انبیاءکی دو رکعت میں امامت فرمائی۔اور پھر اللہ کریم وہاں سے آسمانوں پر سدرة المنتہٰی آخری آسمان تک اور اُس سے آگے جہاں تک اللہ نے چاہا وہاں تک اللہ کریم لے گئے آپ ٬ﷺنے برزخ کے حالات کا مشاہدہ فرمایا جنت کا مشاہدہ فرمایا بنفس نفیس دوزخ کو دیکھا آخرت کے حالات آپ نے آنکھوں دیکھے اللہ کریم جن منازل پر لے گئے اللہ جانے اور اللہ کاحبیب ﷺ۔

اس میں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ معراج روحانی تھا اور روح اقدس نے یہ سب دیکھا روحانی واقعات اور روحانی معجزات تو حضورﷺ کی زندگی میں بے شمار ہیںآپ ﷺ کی سیرت طیبہ بھری پڑی ہیں لیکن اس میں پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ قادر ہے کمزوری سے پاک ہے جو چاہے کر سکتا ہے اُس زمانے میں شب بھر میں مکہ مکرمہ سے بیت المقدس پہنچنا اور واپس آجانا یہی نا ممکنات میں سے تھا مہینوں کا سفر تھا آنے جانے کا تو وہ زمانہ کسی سواری موٹر کار یا ریل گاڑی اور جہاز وغیرہ کا نہیں تھا گھوڑے اونٹو ں پر سواری ہوتی تھی تو یہی بہت عجیب وغریب بات تھی کہ اللہ کریم حضور ﷺ کو بیت المقدس سے بالائے آسمان اُس سے آگے جہاں تک اللہ نے چاہا لے گئے پھر اس میں جو کہتے ہیں یہ روحانی تھا اُنہیں یہ سوچنا چاہیے کہ اللہ نے فرمایا اپنے بندے حضرت محمد ﷺ کو بندہ روح کو نہیں کہتے نا صرف جسم کو بندہ کہتے ہیں بندہ روح مال جسد کو کہتے ہیں جسم میں جان باقی ہوتو بندہ کہاجاتا ہے۔دوسری بات یہاں یہ فرمائی کہ سب سے بلند ترین مقام اللہ کا بندہ ہونا ہے اللہ کی ذات اور صفات میں شریک نہیں۔

حضورﷺاپنے جسم مبارک سمیت زندگی کی حالت میں مکہ مکرمہ سے بیت المقدس اور بیت المقد س سے سدرة المنتہٰی اور اُس سے آگے جہاں تک اللہ نے چاہا آپ ﷺ وجود عالی سمیت تشریف لے گئے۔اور یہ عجیب وغریب اور یکتا معجزہ ہے نبی کریم ﷺ کا ہر نبی سے اللہ کا تعلق اس درجہ کا رہا کہ ہر نبی پر وحی آتی تھی لیکن وحی زمینوں پر آتی رہی انبیاءکو اللہ سے شرفِ ہم کلامی بھی نصیب ہوئی موسیٰ ؑ کلیم اللہ تھے لیکن زمین پر ہی بات ہوتی تھی بے شمار معجزات تمام انبیاءکو عطا فرمائے گئے انبیاءکی ارواح کے سفر کی کوئی بات نہیں کر سکتا اس لیے کہ غیر نبی ،نبی کی منزل کو جان ہی نہیں سکتا۔لیکن جسمانی طور پر حضور اکرم ﷺ کے علاوہ کوئی ہستی اُن بلندیوں پر تشریف نہیں لے گئی جن پر حضور اکرم ﷺ جسم اطہر سمیت تشریف لے گئے ۔اور یہ بھی فرمایا ان ساری بلندیوں کے باوجود حضوراکرم ﷺ اللہ کے بندے ہیں اللہ کی ذات یا صفات میں شریک نہ کیا جائے۔مخلوق ،مخلوق ہے خالق ،خالق ہے وہ واحد ہے لاشریک ہے کوئی اُس کی مثال نہ ذات میں بن سکتا ہے نہ صفات میں تو اس سفر کی روداد سن کر عیسائیوں کی طرح حضور اکرم ﷺ سے الوہیت کی نسبت نہ کی جائے فرمایا کہ سفر روح مال جسد جسمِ اطہر کا تھا اگر حضور اکرم ﷺ کی برکات نصیب ہوں کسی فرد مسلمان کی روح کو تو وہ روح بالائے آسمان بھی جاتی ہے اور اُس سے آگے عرشِ عظیم بھی جاتی ہے اور نو عرش طے کر کے عالمِ امر بھی جاتی ہے اسی کو سیر سلوک یا تصوف کہتے ہیں۔اور انہیں کو منازلِ سلوک کہا جاتا ہے۔لیکن جسدِ اطہر کے ساتھ جانا اور وہ لطافت اس کا مطلب ہے حضور اکرم ﷺ کے جسم اطہر میں وہ لطافت تھی جو ہر قص و ناقص کی روح کو بھی نصیب نہیں ہوتی۔

مسجدِ اقصیٰ میں تشریف لے گئے فرمایا مسجدِ اقصیٰ بیت المقد س ایسی جگہ ہے جس کے ماحول کو ارد گرد کو ہم نے برکتوں سے بھر دیا ۔ظاہر ی برکات وہاںبے شمار ہیں سرسبزوشاداب علاقہ ہے ہر موسم کے پھل ہر جگہ دستیاب ہوتے ہیں وافر ہوتے ہیں فراوانی ہے اللہ کی نعمتوں کی اور بہت سے انبیاءؑ کی آرام گاہ بھی ہے۔تجلیاتِ باری کا محور بھی ہے بہت سی قوموں کا قبلہ بھی رہا تجلیاتِ ذاتی کا محور بھی ہے تو ظاہری طور پر اور باطنی طور پر بھی بے پناہ برکات کا مجموعہ ہے ۔اور فرمایا صرف بیت المقدس تک ہی مقصد نہیں تھا بلکہ ہم نے انہیں اپنی نشانیاں دکھائیں بیت المقدس سے بالائے آسمان ،بالائے آسمان سے عرشِ عظیم تک پھر آپ ﷺ نے برزخ کے حالات کا ملاحظہ فرمایا بیان حضور ﷺ کی حدیث پاک میں موجود ہے جنت کا ملاحظہ فرمایا دوزخ کو دیکھا اور آخرت کے حقائق سے آگاہ ہوئے۔

زندگی اور موت کے بارے انبیاءؑ نے سوال کیے، حضرت ابراھیم ؑ نے عرض کی اے اللہ آپ مُردوں کو کیسے زندہ فرمائیں گے تو پوچھا گیا کہ آپ کو یقین نہیں فرمایا یقین تو ہے بارِ الہا میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ ہوگا کیسے؟ تو فرمایا آپ چار پرندے لیں اُنہیں اپنے ساتھ ہلا لیں پھر جب ہل جائیں تو انہیں ذبح کر کے گوشت اکٹھا کر کے چوری بنا کر ہڈیاں کچل کر پہاڑوں پر پھینک دیں اور ایک ایک کو بلائیں دیکھیں وہ آپ کے پاس آجائے گا کوئی ذرا کہیں کوئی ذرا کہیں سے اُ ڑ کر آ رہا ہے اور جسم بن رہا ہے ۔حضرت عذیر ؑ نے شہر کو برباد دیکھ کر سوال کیا اللہ ان مُردوں کو پتہ نہیں کیسے زندہ کرے گا زندہ تو کرے گاکیسے کرے گا یہ سمجھ نہیں آتی ۔انہیں سو سال سُلا دیا اور جب اُٹھے تو فرمایا اب دیکھیں آپ کا جو کھانا اور آپ کے پاس جو مشروب تھا وہ ویسے کا ویسا تازہ رکھا ہے آپ کی سواری کا گدھا تھا اُسے مٹی کھا گئی اب دیکھیں کہ وہ کیسے زندہ ہوتا ہے ایک ایک ذرہ جڑ کر پھر وہ سلامت ہوکر زندہ ہو گیا۔لیکن یہ سارے مشاہدات سارے واقعات زمین پر ہی وقوع پذیر ہوئے۔

یہ حضور اکرم ﷺ کی ذات ہے کہ جنہوں نے بنفسِ نفیس تشریف لے جا کر برذخ ، بالائے آسمان ، جنت دوزخ کا مشاہدہ فرمایا اور اللہ کی بارگاہ میں حاضری دی ۔

جہاں تک کلامِ باری کا تعلق ہے تو اس میں تو کسی کو شعبہ نہیں ہے کہ حضورﷺ اللہ کے کلام سے مشرف ہوئے۔اور اُمت کے لیے پچاس نمازوں کا تحفہ عطا ہوا ۔یہ نمازیں جو فرض ہیں یہ معراج شریف کی خوشی میں تحفہ عطا ہوا کہ اُمت کو پچاس مرتبہ دن میں میری بارگاہ میں حاضری دے سکیں۔لمبی حدیث ہے کہ کم ہوتے ہوتے پانچ رہ گئیں اور ارشاد ہوا کہ یہ ادا پانچ کریں گے ثواب پچاس کا ہی دوں گا۔اجر پچاس کا ہی پائیں گے۔یہ صلوة جسے آج ہم بوجھ سمجھتے ہیں اور اکثریت مسلمانوں کی جسے بھولے ہوئے ہے یہ وہ انعام ہے وہ تحفہ ہے جو حضورﷺ کو معراج پر تشریف لے جانے پر اللہ کی طرف سے نصیب ہوا۔کہ آپ کی ساری اُمت دن میں روزانہ پانچ مرتبہ میری بارگاہ میں حاضر ہوکر اپنی گزارشات بھی پیش کر سکتی ہے میری نوازشات بھی حاصل کر سکتی ہے انسان کیونکہ مادیت میں اُلجھ جاتا ہے اس چیز کا احساس اور ادراک نہیں ہے کہ الوہیت میں حاضری کا مرتبہ اور مقام کیا ہے۔اس لیے ہمیں یہ بوجھ لگتی ہیں ۔

یعنی ہم اُنہیں اپنی نشانیاں دکھائیںیعنی یہ برذخ اور آخرت کے حالات اور بالائے عرش کی باتیں اُن پر واضح کر دیں تا کہ وہ اپنی آنکھوں سے دنیاوی اس جسم اطہر کے ساتھ سب ملاحظہ فرما لیں۔اللہ کریم سے شرفِ ہم کلامی نصیب ہوئی جہاں تک زیارت باری کا تعلق ہے تو وہاں علماءکے دو طبقے ہیں ایک طبقہ کا خیال یہ ہے کہ اس دنیاوی زندگی میں اللہ کی زیارت ممکن نہیں ہے موسیٰ ؑ نے عرض کیا تھا بارالہا مجھے اپنا جمال دکھائیں میں آپ کو دیکھنا چاہتا ہوں تو فرمایا آپ دیکھ نہیں سکتے ۔اس دنیا میں دنیا کی مادی آنکھوں میں وہ قوت نہیں ہے کہ جمالِ باری کو دیکھ سکے ۔آخرت میں میدانِ حشر میں بھی حساب کتاب کے وقت بھی اللہ کریم کے مقرب بندوں کواللہ کا دیدار نصیب ہوگا بلکہ ایک حدیث میں یہاں تک ہے کہ عرض کی گئی یا رسول اللہ ﷺ اللہ کریم کو سامنے دیکھیں گے فرمایا جس طرح تم چاند کو دیکھتے ہو .

اس طرح کا مفہوم ایک حدیث شریف کا ہے جنت میں ہر اہل جنت کو اپنے اپنے درجے کے مطابق دیدار باری نصیب ہوگا تو اعتراض یہ ہوتا ہے کہ دنیا میں دیدارِ باری ممکن نہیں لیکن جو لوگ قائل ہیں وہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ اس دائرے دنیا میں یا اس زمین پر نہیں تھے آپ ﷺ بالائے آسمان اور قرب الٰہی کے اُن منازل میں تشریف لے گئے جو عرشِ عظیم سے بھی بالا تر ہیں لہذا وہاں دنیا کے احکام لاگو نہیں ہوتے وہاں عالم بالا ہے اور وہاں دیدار ہونا کوئی محال نہیں ہے ۔یقنناً اللہ کریم ایسے ہیں کہ سب کچھ سنتے بھی ہیں دیکھتے بھی ہیں۔اپنے حبیب ﷺ کو سفر کرایا قادر ہے بالائے عرش لے گیا وہ قادر ہے آخرت دکھائی وہ قادر ہے جو چاہے کر سکتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے