اقلیتوں کے تحفظ سے دنیا میں پاکستان کا چہرہ روشن ہوگا . سماجی ماہرین

کراچی میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کے زیر اہتمام سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے معروف علمی اور سماجی شخصیات نے کہا کہ پاکستان میں اکثریت کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اقلیت پر اپنی مذہبی فکر مسلط کرے.

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کے زیر اہتمام سندھ اور بلوچستان کی جامعات کے اساتذہ کے لئے سماجی ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کے موضوع پر دو روزہ ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا.

13113178_10208010779700890_627127257_o

پشاور یونی ورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا کہ معاشرے میں سماجی ہم آہنگی وقت کا تقاضا ہے اور اس کے قیام کے لئے اساتذہ اور علماء کو مل کر جدو جہد کرنا ہو گی.

ڈاکٹر جعفر احمد کا کہنا تھا کہ کہ دوسروں علاقوں سے منتقل ہونے والے لوگوں پر زمین تنگ کرنے بجائے انہیں برابر کے مواقع فراہم کئے جائیں تاکہ وہ ترقی کے عمل میں شریک ہو سکیں .

قائد اعظم یونی ورسٹی اسلام آباد کے پروفیسر ڈاکٹر عبدالحمید نئیر نے کہا کہ دہشت گردی نے ملکی فضا کو آلودہ کر دیا ہے.اب ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام مذاہب سے وابستہ لوگ بہتر سماج کی پرورش کے لئے سماجی ہم آہنگی کے قیام کے لئے باہمی مکالمہ شروع کریں.

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے معروف صحافی وسعت اللہ خان نے کہا کہ عدم رواداری کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمیں اتنا ہی آسمان نظر آتا ہے جنتا ہمارے گھر کی کھڑکی سے دکھتا ہے ۔ اور ہم اسی کو کل آسمان سمجھ بیٹھتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اچھے معاشروں میں لوگ خود کو اعلیٰ سمجھنے پر اصرار نہیں کرتے بلکہ اجتماعی دانش سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ سچائی کبھی تنگ نظر نہیں ہوتی اور نا ہی سچ کی تلاش کا مسافر تھک کر راستہ چھوڑ دیتا ہے . انہوں نے کہا کہ اور اپنی رائے کو حتمی جان کر اوروں کی رائے کا احترام نہ کرنے کا رویہ معاشروں میں انتشار پیدا کرتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ عدم رواداری کی دوسری بڑی وجہ تکبر اور تفاخر ہے جس سے عدم رواداری کا سفر شروع ہوتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ عدم رواداری اس دن ختم ہو جائے گی جس دن ہم اس بات کا فیصلہ کر لینگے کہ یہ ملک مسلمانوں کا ہے یا پاکستانیوں کا ۔

13113202_10208010778500860_907620015_o

ممتاز دانشور ڈاکٹر خالدہ غوث نے کہا کہ عدم رواداری کی وجوہات میں صرف مذہب ہی نہیں بلکہ سماجی ناانصافیاں ، متضاد نظام تعلیم اور معاشی ناہمواریاں بھی شامل ہیں .

سماجی رہ نما رومانہ بشیر نے کہا کہ اقلیتوں کو عملی طور برابر کا شہری تسلیم نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے ان کے ذہنوں میں ایک خوف کی فضا پروان چڑھ رہی ہے . انہوں نے کہا کہ ہمیں اقلیتوں کا زیادہ خیال رکھنا چاہیے کیونکہ یہ دنیا میں پاکستان کا چہرہ ہیں .

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کے ڈائریکٹر محمد عامر رانا نے کہا کہ ہمیں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے بجائے قبول کرنے کا رویہ اپنانا ہوگا .انہوں نے کہا کہ پیپس ملک میں مکالمے کے کلچر کے فروغ کا خواہاں ہے .

ادارہ تعلیم و تحقیق کے چئیرمین اور معروف اسکالر خورشید ندیم نے کہا کہ صحت مند معاشرے کے قیام کے لیے وسیع پیمانے پر جدو جہد کی ضرورت ہے .انہوں نے کہا کہ سماجی ہم آہنگی کا مطلب معاشرتی سطح پر باہمی میل ملاپ کو فروغ دینا ہے .

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے