لیلائے وطن کا مجنوں

حیرانی کی بات ہے کہ ایک ایسا شخص جسے پاکستان اور بھارت کی ریاستیں پسند نہیں کرتیں ، ایک نے اسے بھارتی ایجنٹ قرار دے کر پندرہ ماہ جیل میں رکھا تو دوسری ریاست نے اسے پاکستانی ایجنٹ قرار دے کر مقدمہ چلایا مگر وہ ان ریاستوں سے نفرت پالنے کے بجائے ان سے مکالمے پر زور دیتا رہا تاکہ ایک نئی ریاست کے قیام کی راہ ہموار ہوسکے۔

لیلائے وطن کا یہ مجنون خود ایک تحریک بھی تھا اور ایک کاررواں بھی، آزادی کی تلاش میں جہد مسلسل کے دوران بالآخر زندگی کی قید سے آزاد ہوگیا۔جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے قائد تحریک آزادی کشمیر کا ایک بڑا حوالہ جناب امان اللہ خان اپنے اعمال کے ساتھ اللہ کے حضورحاضر ہو گئے۔ان کے سیاسی نظریے سے اختلاف تو ہو سکتا ہے لیکن کشمیر کی آزادی، آزاد و خود مختار ریاست کے قیام کے لیے ان کی مخلصانہ اور انتھک جد وجہد تاریخ کا جاندار باب ہے۔

امان اﷲ خان 24 اگست 1931ء کو استور گلگت بلتستان میں پیدا ہوئے۔1950ء میں گلگت بلتستان میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔بعدازاں انہوں نے ایس پی کالج اور پھر امرسنگھ کالج سرینگر میں داخلہ لیا اور انٹرمیڈیٹ کا امتحان

جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے قائد تحریک آزادی کشمیر کا ایک بڑا حوالہ جناب امان اللہ خان اپنے اعمال کے ساتھ اللہ کے حضورحاضر ہو گئے
جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے قائد تحریک آزادی کشمیر کا ایک بڑا حوالہ جناب امان اللہ خان اپنے اعمال کے ساتھ اللہ کے حضورحاضر ہو گئے

پاس کیا۔1957ء میں وہ کراچی چلے گئے اور ایس ایم کالج کراچی سے بی اے کیا۔1962ء میں کراچی سے ہی قانون کی ڈگری حاصل کی۔1963ء میں کشمیر کی آزادی کے لیے متحرک ہوگئے۔وہ دوران طالب علمی سے ہی خود مختار کشمیر کی سوچ اپنائے ہوئے تھے چنانچہ 1963ء میں کشمیر خود مختار کمیٹی کے نام سے ایک کمیٹی قائم کیا بعدازاں انہیں جموں کشمیر رائے شماری فرنٹ کا جنرل سیکرٹری منتخب کیا گیا۔

1965ء میں شہید کشمیر مقبول بٹ کے ساتھ مل کر جموں کشمیر نیشنل لبریشن فرنٹ کی بنیاد رکھی۔1976ء میں وہ پاکستان سے برطانیہ منتقل ہوگئے جہاں انہوں نے جموں کشمیر نیشنل لبریشن فرنٹ سے الگ ہوکر جموں کشمیر لبریشن فرنٹ قائم کی۔ستمبر 1985ء میں برطانیہ میں گرفتار کر لیے گئے جبکہ دسمبر 1986ء کو انہیں پاکستان ڈی پورٹ کر دیا گیا۔امان اﷲ خان نے 1988ء میں مقبوضہ جموں کشمیر میں عسکری تحریک کی حمایت کی تھی بعد ازاں لبریشن فرنٹ نے عسکریت کے بجائے پر امن جدوجہد کا راستہ اپنایا تھا1990 کے اوائل میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ بھی عسکری تحریک میں شامل تھی چنانچہ امان اﷲ خان بھی بھارت کو انتہائی مطلوب افراد میں شامل تھے ۔بھارت کی درخواست پر حکومت امریکہ نے 1990ء میں امان اﷲ خان کا ویزہ منسوخ کر دیا۔

1993ء میں امان اﷲ خان یورپی پارلیمنٹ مسئلہ کشمیر پر ایک سیمینار میں شرکت کے لیے بیلیجم کے دارالحکومت برسلز پہنچے تو انہیں وہاں گرفتار کر لیا گیا۔دراصل بھارتی حکومت نے امان اﷲ خان کی گرفتاری کے لیے انٹرپول کو وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کی تحریک کر رکھی تھی۔امان اﷲ خان کی گرفتاری کے بعد بھارتی حکومت نے بیلیجم حکومت سے مطالبہ کیا کہ امان اﷲ خان کو بھارت کے حوالے کیا جائے بیلیجم کی عدالت نے بھارت کا مطالبہ مسترد کرتے ہوئے تین ماہ کے بعد امان اﷲ خان کو رہا کردیا۔

امان اﷲ خان کے سوگواران میں صرف ایک بیٹی ہے ان کی بیٹی عاصمہ خان کی شادی جموں کشمیر پیپلز کانفرنس کے چیئرمین مرحوم عبدالغنی لون کے بیٹے سجاد لون سے 2000ء میں راولپنڈی میں ہوئی تھی۔جناب امان ﷲ خان جب 1952ء میں سرینگر سے پاکستان آئے تو گلگت میں انہیں گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا ان پر بھارت کا ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا گیا۔وہ 15 ماہ جیل میں رہے۔ قابل ذکر آمر یہ ہے کہ اسی دوران سرینگر میں بھی امان اﷲ خان کے خلاف پاکستان کا ایجنٹ ہونے کا مقدمہ درج کیا گیا کیونکہ امان اﷲ خان سرینگر میں موجود نہیں تھے اس لیے ان کے مقدمہ کی کارروائی آگے نہ بڑھ سکی۔

امان اﷲ خان گزشتہ ایک ماہ سے شدید بیمار تھے مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج رہے گزشتہ روز راولپنڈی کے ہارٹس انٹرنیشنل ہسپتال میں اس دار فانی سے کوچ کر گئے امان اﷲ خان ریاست جموں وکشمیر کے وہ واحد سیاست دان ہیں جنہوں نے کوئی جائیداد نہیں چھوڑی اپنے تمام اثاثہ جات پارٹی کو دے دیئے۔ امان اﷲ خان کی رحلت سے جوان جذبوں اور ایک عہد کی علامت کا خاتمہ ہوگیا ہے ۔ امان اﷲ خان کی جدوجہد نصف صدی پر محیط ہے اس دوران انہوں نے خود مختار کشمیر کے حق میں غیر معمولی مہم چلائی90 کی دہائی میں امان اﷲ خان نے خود مختار کشمیر کی متوازی حکومت بھی قائم کی تھی، چار بار جنگ بندی لائن توڑنے کی کوشش کی۔

ان کی کتاب جہد مسلسل ان کی زندگی کی جدوجہد کی بھرپور ترجمان ہے۔جناب امان اللہ خان ریاست جموں وکشمیر کی آزادی اور خود مختاری کے بارے میں غیر معمولی طور پر متحرک رہے ایک طرح سے کشمیر کی آزادی اور خود مختاری کا نظریہ ان کا سیاسی ایمان تھا ۔ وہ اس نظریہ پر آخری سانسوں تک برقرار رہے ۔ نظریہ خود مختار کشمیر سے اختلاف کیا جاسکتا ہے مختلف لوگوں کے پاس اس نظریہ کی مختلف یا الگ سے تشریح موجودہے ماضی قریب میں جب جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے کہیں دھرے کام کر رہے تھے کچھ لو گوں کی ہمدردیاں کسی وجہ سے بھارت کے ساتھ تھیں اور کچھ لوگ پاکستان بارے اچھی رائے رکھتے تھے ۔

امان اللہ خان پاکستان نواز تھا اور نہ بھارت نواز وہ کشمیر نواز تھا ۔نصف صدی تک ریاست کی وحدت کی بحالی اور ریاست کو یک جان کر کے ایک ملک بنانے کی جدوجہد اس کا برملا ثبوت ہے آج کے دور میں کسی شخص یا رہنما کا کسی ایک موقف پر زیادہ دیر برقرار رہنا ناممکن ہوتا ہے۔ حالات کے مطابق لوگوں کے نظریات بدل رہے ہیں ۔ موقف تبدیل ہو رہا ہے رائے تبدیلی ہو رہی ہے مگر امان اللہ خان نے 1957میں کراچی میں جس نظریہ کو اپنایا تھا 26اپریل 2016تک یعنی اپنی آخری سانسوں تک وہ اس نظریہ کی ابیاری کرتے رہے ۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے ان کا خواب ان کی زندگی میں پورا نہیں کیا مگر وہ اپنے اس خواب کی تعبیر کی خوشی ہر نوجوان میں بھر چکے ہیں۔ آج جو لوگ ان کے ساتھ ہیں انہیں کسی دبائو کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا اس لیے کہ نظریہ کے راستے میں سارے مسائل اور ساری مشکلات امان اللہ خان نے اپنے دور میں تنہا ہی جھیل چکے ہیں۔

مجھے کئی بار ان سے ملاقات کا موقع ملا، کشمیر کے حوالے سے مختلف امور پر بات چیت اور انٹرویو بھی کیے ۔ میں نے انہیں ایک سچا کھر ،دو ٹوک اور سادہ انسان پایا۔ ان کی زندگی میں مال ودولت کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ وہ چاہتے تو اپنے نظریہ کی بنیاد پر اپنے لیے بھی پلاز ے اور عمارتیں کھڑی کر سکتے تھے۔ گھر گاڑیاں اور پر تعیش سامان زندگی حاصل کر سکتے تھے مگر وہ ایسے نہیں تھے ۔ اس لیے شاید ان کے ذاتی اکائونٹ میں چند روپے ہی ہوں گے ۔

ان کا کہنا تھا کہ نظریہ خود مختار کشمیر کی وجہ پاکستان سے نفرت نہیں بلکہ پاکستان سے دوستی اور پاکستان سے محبت کی بنیاد پر ہے۔ جموں وکشمیر کی ریاست پاکستان کے ساتھ اچھے دوستی کی تعلقات قائم کرے گی ۔

امان اللہ خان راولپنڈی میں چاندنی چوک میں پارٹی دفتر کے ساتھ ایک مختصر سی رہائش گاہ پر عمر بھر مقیم رہے۔ پارٹی کے چندذمہ دران ان کی دیکھ بال کرتے رہے وہ انتہائی سادہ شخص ہونے کے ساتھ ساتھ سادہ طرز زندگی اپنائے ہوئے تھے۔ کشمیر کو آزاد اور خود مختار ریاست کے نظریہ کے حا می افراد کی بڑی تعداد مشرق وسطیٰ یورپ اور دوسرے علاقوں میں مقیم ہے ۔ اگر امان اللہ خان ہلکی سی خواہش کا اظہار کر دیتے تو ان کی سادہ طرز زندگی پر تعیش زندگی میں بدل سکتی تھی مگر نظریہ سے عشق و محبت کا تقاضا یہ تھا کہ مال ودولت کے بجائے نظریہ کی آبیاری کی جائے ۔

ان کے افکار ، نقوش راہ ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔ سادہ طرز زندگی اور نظریہ سے عشق ہمیں کسی بھی پر کٹھن راستے کو عبور کرنے کا حوصلہ دیتاہے۔ ریاست کے جو نوجوان پاکستان سے ناراض ہیں پاکستان کی ریاست کے بارے میں جن کے خیالات میں نفرت بھر چکی ہے وہ دراصل امان اللہ خان کے نظریات سے ناواقف ہیں۔امان اللہ خان کا کہنا تھا کہ ہماری جدوجہد کا مقصد اور محور پاکستان سے نفرت نہیں پاکستان سے دوستی اور محبت ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے