”مالک” پرپابندی کا اخلاقی جواز کیا ہے؟

1975 میں جب ہندوستان میں اندراگاندھی کی حکومت نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر رکھی تھی تو اس کا اطلاق اس وقت کی فلموں پر بھی ہو رہا تھا. اس سال ریلیز ہونے والی مشہور زمانہ فلم شعلے پر بھی ایمرجنسی کے اثرات نمایاں ہیں. فلم شعلے کے اصل اختتام میں گبر سنگھ کو ٹھاکر ‘قتل’ کرتا ہے, حالات کے پیش نظر شعلے فلم کے انجام کو تبدیل کرتے ہوئے سینسر بورڈ کی ہدایت پر اختتام کو دوبارہ فلمایا گیا اور گبر سنگھ کو بجائے ‘قتل’ کرنے کے پولیس کے حوالے کر دیا جاتا ہے اور یہی اینڈنگ ریلیز ہونے والی فلم کا حصہ بنائی گئی.

پاکستان میں حال ہی میں بننے والی فلم ‘مالک’ کو پہلے یونیورسل سرٹیفیکیٹ دے کر ریلیز کی اجازت مل گئی لیکن تین ہفتے بعد بین کر دیا گیا. اس فلم کو ایک حکومتی حکم کے تحت بین کیا گیا ہے مگر بین کرنے کے پیچھے واضع وجوہات نہیں بتائیں گئی. اس فلم کے خلاف اور اس کے حق میں مختلف حلقوں سےمختلف دلیلیں سامنے آرہی ہیں. کچھ حلقوں کی طرف سے اس کے لسانی پہلو کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہاہے مگر حکومت کوزیادہ تشویش شایداس بات پر ہے کہ فلم کے اختتام میں ایک سیاست دان کو اسی کا محافظ گولی مار کر ‘قتل’ کر دیتا ہے.

پاکستان میں اس وقت 1975 کے ہندوستان جیسی ایمرجنسی تو نافز نہیں مگر ماضی قریب میں گورنر پنجاب کا واقع ہو چکا ہے اور ایک حلقے کی نظر میں اس فلم میں محافظ کے کردار کا وہ فعل اس حقیقی واقع کو جسٹفائی یا گلوریفائی کرتا نظر آتا ہے.

تنقیدکرنے والا ایک حلقہ اس بات کا قائل ہےکہ یہ فلم آئی ایس پی آر فنڈڈ ہے اور ان کے لئے اس کی مخالفت کے لئے یہ وجہ کافی ہے.

وہ حلقہ جو خودکو لبرل کہلاتا ہے اور ملک میں آزادی رائے کے حق میں شور مچاتا ہے وہ اس فلم کی کے خلاف کھڑا نظر آتا ہے کوئی ان سے پوچھے کہ جو ان کے ہم خیال نہیں اگر وہ اس فلم کو پسند کرتے ہیں تو کیا ان کی نظر میں اس فلم کو بین کرنا آزادی رائے پہ قدغن تصور نہیں ہوگا؟ ٹھیک اسی طرح جیسے آپ اپنی من پسند باتوں کے حق میں بات کرتے ہیں اور اس کے حق میں دلیلیں دیتے ہیں

حکومت کو قانون چاہے اجازت دیتا ہو کہ وہ فلم کو بین کر دے مگر وہ اس کو بین کرنے کا اخلاقی حق اس وقت کھو چکی تھی جب ملک کے مختلف سینسر بورڈز اسے سینما گھروں میں چلنے کے لئے اجازت دے چکے تھے.
.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے