"دس سال پہلے”

میں صبح سات بجے گھر سے نکلتا تھا, بائیس نمبر تک بیس منٹ پیدل, وہاں سے ویگن میں جو ہر سٹاپ پہ رکتی سواریاں بٹھاتی, اتارتی, آدھ پونے گھنٹے میں پیرودھائی پہنچاتی تھی, وہاں سے کھٹارہ قسم کی سوزوکی وین میں جس کی بارہ سواریاں پوری ہونے میں ہی بعض اوقات آدھ گھنٹہ لگ جاتا تھا, جی الیون پہنچتا تھا- جہاں سے ہمارے آفس جو کہ جی الیون مرکز میں واقع تھا, پیدل پہنچنے میں مجھے مزید بیس منٹ لگ جاتے تھے- میرا ناشتہ دفتر پہنچتے پہنچتے ہی ہضم ہو چکا ہوتا تھا اور گرمی, پسینے, تھکن اور نیند پوری نہ ہونے کے سبب برا حال ہوتا تھا, مگر آگے ایک طویل اور تھکا دینے والا دن میرا منتظر-

اس کیٹرنگ کمپنی کا میں آفس مینیجر کم اکاؤنٹنٹ کم سٹورکیپر کم پرچیزر کم مارکیٹگ ایگزیکٹو کم ریکوری آفیسر کم ایونٹ مینیجر تھا- دفتر پہنچ کر میں ڈرائیور شیر خان کو جگاتا تھا جو رات دفتر ہی میں سویا کرتا تھا- وہ منہ پہ پانی کے دو چھینٹے مار کے باس کے گھر چلا جاتا تھا اور میں دو گلاس پانی پہ کر اپنے حواس بحال کرنے کے بعد پچھلے دن کے کاغذات سمیٹنے, اینٹریاں کرنے اور سٹاف کی پچھلے روز کی حاضریاں لگانے لگتا تھا- جب تک شیر خان ناشتہ کرکے اور باس کے کام بھگتا کر واپس آتا تھا میں ای میلز اور ڈاک چیک کرنے کے بعد اپنا پورے دن کا شیڈول بنا چکا ہوتا تھا- پھر ہم دونوں شہ زور منی ٹرک پہ سوار ہو کر اسلام آباد کی خاک چھاننے نکل کھڑے ہوتے تھے-

کمپنی کا سٹور پلس کچن پولیس فاؤنڈیشن میں تھا, وہیں باقی عملے کی رہائش بھی تھی- وہاں جا کر گزشتہ فنکشن سے واپس آنے والا سامان چیک کرنا, ٹوٹ پھوٹ کمی بیشی کی رپورٹ لینا, نقصان کا اندازہ کرنا اور ذمہ داروں کا تعین کرنا, سٹاک رجسٹر اپ ڈیٹ کرنا, سٹاف کی چھٹیوں اور دیگر مسائل کو سننا, باورچیوں سے آج کے فنکشن کیلئے مطلوب سامان کی لسٹ لینا, واپس جی الیون آ کر بنک سے کیش نکلوانا اور پھر مارکیٹ کا رخ کرنا-

باورچی ایسے عجیب و غریب مصالحے لکھواتے تھے کہ ایک ایک آئٹم کی تلاش میں مجھے اور شیر خان کو دو دو مارکیٹیں گھومنا پڑتی تھیں, بدقت تمام سب اشیاء پوری کرکے شیر خان مجھے آفس واپس اتارتا تھا- میں بنک اور کیش اکاؤنٹ سیدھا کرتا تھا تمام بلوں کا اندراج کرنا, متعلقہ فنکشن کی فائل میں بلوں کو لگانا, واؤچرز باس سے سائن کروانا- آلو مہنگے کیوں ہوئے, انڈے زیادہ کیوں لئے, دودھ, دہی نئی دکان سے کیوں لیا, گوشت والے کا ٹھیکہ ختم کیوں نہیں کیا وغیرہ وغیرہ کا جواب دینے کے بعد بالآخر واؤچرز سائن ہو کر فائل میں لگتے تھے- اتنے میں شیرخان واپس آجاتا تھا, اب بطور مارکیٹنگ ایگزیکٹو و ریکوری آفیسر میری ذمہ داریوں کا آغاز ہوتا تھا-

سابقہ ایونٹس کا بقایا وصول کرنا, راستے میں آنے والے سرکاری و نجی بڑے کلائنٹس سے سلام دعا کرتے جانا, گزشتہ روز کی انکوائریز بھگتانا اور متوقع نئے کلائنٹس کو کنونس کرنا- شیر خان بیچارہ اس دوران اکثر مجھے کسی ایک جگہ اتار کے خود دیگر کام بھگتانے واپس چلا جاتا تھا, مجھے باقی کتا خواری اکیلے کرنا پڑتی تھی- سب کام نبٹا چکنے کے بعد شیر خان کو کال کر کے اپنا موجودہ مقام بتاتا تھا اور پھر ہم دونوں واپس دفتر آجاتے تھے-

باس یا بگ باس کو اپنی کارگزاری کی رپورٹ سنانے کے بعد, شاباش یا جھڑکیاں وصول کر کے میں اور شیر خان واپس پولیس فاؤنڈیشن کا رخ کرتے تھے- آج کے فنکشن کی تیاریوں کا جائزہ لیتے تھے, ویٹرز کی شیو, ناخن, بوٹ پالش, یونیفارم چیک کرنا, تمبو قناتوں والوں کی تیاری دیکھنا, مینیو آئیٹمز کو سونگھنا اور چکھنا, اکثر کسی نہ کسی چیز کی کمی یا عدم دستیابی ہونا, بھاگم بھاگ مطلوبہ آئٹم پوری کرنا پھر تمبو قنات پارٹی کو شہ زور پہ بمعہ سامان سوار کر کے شیر خان کا مجھے آفس چھوڑ کے خود فنکشن کے مقام پہ چلا جانا-

اب جب تک شیر خان کی واپسی نہ ہو اس دوران میں نے لائٹنگ اور ڈیکوریشن والوں کو فون کر کے ان کی رپورٹ لینی اور جی ایم سے گپ شپ لڑانی ہوتی تھی- جب شیر خان تمبو قناتوں کے بعد ویٹر پارٹی اور پھر کچن سٹاف بمعہ مینیو آئٹمز کو جائے وقوعہ پہ پہنچا دیتا تھا تو پھر وہ دوبارہ آفس آتا تھا- اگر کوئی بڑا فنکشن ہو اور ہر دوسرا فنکشن بڑا ہی ہوتا تھا تو اب مجھے کریم شریم, جیل شیل لگا کر بطور ایونٹ مینجر اسے اٹینڈ کرنا پڑتا تھا-

رات کو نو بجے شروع ہونے والے فنکشن سے میری واپسی کھانا کھلنے یعنی گیارہ بارہ سے پہلے ممکن نہیں ہوتی تھی- شیر خان نے چونکہ مجھے ڈراپ کرنے کے بعد باقی سب کو بھی بمعہ سازوسامان کے ڈراپ کرنا ہوتا تھا اس لئے وہ مجھے اکثر آبپارہ یا زیرو پوائنٹ اتار کر چلا جاتا تھا- ایک نمبر وین رات ایک بجے تک بھی مل ہی جاتی تھی, مگر کبھی فورا” تو کبھی طویل انتظار کے بعد, صدر سے البتہ گھر تک جانے کو صرف ٹیکسی دستیاب ہوتی تھی جس کا کرایہ میں افورڈ نہیں کر سکتا تھا- لہٰذا اکثر رات کے ایک بجے میری چالیس پینتالیس منٹ کی نائٹ واک ہوا کرتی تھی- گھر پہنچتا تو بہن منتظر ہوتی تھی-

اللہ بخشے امی کی ہدایت تھی کہ رات کا کھانا گھر آ کر ہی کھانا ہے چنانچہ وہ میرا ڈنر ٹائم ہوا کرتا تھا- بہن بیچاری نیند بھگانے کو دو کپ چائے بناتی تھی, میرے کھانا کھا چکنے کے بعد ہم دونوں برامدے میں بیٹھ کر چائے کی پیالی پہ ایک دوسرے کو پورے دن کی ہیڈ لائنز سنایا کرتے تھے- اور یوں کوئی رات ڈھائی تین بجے بستر نصیب ہوتا تھا, عموما بستر پہ گرنے کے پانچ سیکنڈز کے اندر ہی نیند آجایا کرتی تھی, کیونکہ صبح ساڑھے چھ بجے اٹھنا ہوتا تھا- اور پھر….یہی مضمون ایک بار پھر پڑھ لیجئے کیونکہ یہ ایک دن نہیں میرا روزانہ کا معمول تھا آج سے ٹھیک دس برس پہلے-

آج اللہ نے دس سال پہلے کی نسبت کم از کم دس گنا زیادہ آمدنی, دس گنا زیادہ اتھارٹی, دس گنا زیادہ فارغ وقت, دس گنا زیادہ سہولیات سے نواز رکھا ہے, اس کی بے پناہ کرم نوازیاں ہیں, الحمدللہ- لیکن مجھے یاد ہے کہ تب بھی, اس بے تحاشا مشینی روٹین میں بھی, میں اتنا ہی خوش تھا جتنا کہ آج, اور اللہ بڑے بول سے بچائے اور اپنی نعمتوں کا نزول اسی طرح فرماتا رہے مگر… اگر آج اللہ یہ سب نعمتیں واپس لے لے اور پھر وہی زندگی دوبارہ لوٹا دے تو مجھے ایک ذرا سا شکوہ بھی نہیں ہوگا-

اللہ پاک نے سب سے زیادہ اپنی جس نعمت سے نواز رکھا ہے اور جس پہ اس کا جتنا بھی شکر ادا کروں وہ کم ہے, وہ ہے شکر…اللہ کی تقسیم پہ راضی ہو جانا- میں اللہ سے راضی ہوں ہر حال میں اور امید کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ وہ بھی مجھ سے راضی ہو جائے…. میرے حساب کا وقت آنے سے پہلے پہلے- شکر کرتے رہا کریں, زندگی شکر سے حسین ہوتی ہے شکووں سے نہیں- اپنے دس سال پہلے کے حالات سے اپنے آج کا موازنہ کیجیے, مجھے یقین ہے آپ پہ بھی شکر واجب ہے-

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے