والدین بچوں کی تربیت کیسے کریں؟

تعلیم کی اہمیت کااندازہ اس بات سے بخوبی لگایاجاسکتا ہے کہ خالق کائنات نے پیغمبر انسانیت حضرت محمد ﷺ پر اپنی آخری کتاب قرآن پاک کے نزول کی ابتداء لفظ ’’اقرا‘‘ سے کی جس کی معنی ہے’’پڑھ‘‘۔تعلیم بلاشبہ انسان کاحقیقی زیور ہے ، اسی کی بدولت انسان انسانیت کی معراج تک پہنچ پاتا ہے، جس طرح وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بیش بہا زیور کی تشکیل نو ضروری ہوتی ہے بالکل اسی طرح انسان کے اس زیور یعنی تعلیم میں بھی جدید رجحانات اور تغیر وتبدل کی اہمیت سے انکار نہیں کیاجاسکتا، اس سے اگر ایک طرف نت نئے تجربات ومشاہدات سے استفادہ ممکن ہوجاتاہے تو دوسری طرف تعلیم وتعلم سے وابستہ افراد میں حصول علم کی جستجو ولگن بھی پروان چڑھتی ہے اوروہ خوب سے خوب ترکے متلاشی ہوجاتے ہیں۔

نظام تعلیم میں حقیقی اور دیرپا تبدیلی لانے کیلئے جہاں اساتذہ پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں وہاں طلبہ کے والدین کو بھی اس سے بری الذمہ قرار نہیں دیاجاسکتا،بلاشبہ بچہ قدرت کاانمول تحفہ ہے، اس کی قیمت کا کوئی اندازہ نہیں لگاسکتا اورجس کو اس ہیرے کی تعلیم وتربیت کی ذمہ داری سونپ دی جائے وہ کتنا معتبر اور صاحب عزت واحترام ہوگا، اس لئے استاد اپنے پیشے کی قدر کرے اوربچوں کی رہنمائی میں کوئی کسر نہ چھوڑے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بچوں کی تعلیم وتربیت میں والدین کی ذمہ داری صرف پیسے کی فراہمی تک محدود نہیں بلکہ اس اہم موڑ پر انھیں استاد کے شانہ بشانہ کردار اداکرناہوگا،ہمارے یہاں افسوس ناک امر یہ ہے کہ والد کو اے ٹی ایم سمجھا جاتاہے جس کا کام صرف مالی ضروریات پوری کرنا ہوتاہے، بچوں کی تعلیم وتربیت کی ساری ذمہ داری استاد کے کندھوں پر ڈالی جاتی ہے جو کہ قرین انصاف نہیں۔

والدین کی یہی تمنا ہوتی ہے کہ انھوں نے پائی پائی جمع کرکے اپنے بچے یابچی کو پڑھایا، لکھایا اب انھیں زیادہ سے زیادہ نمبر لینے ہوں گے،ہمارا تعلیمی نظام ڈگری کے حصول تک محدودہوگیاہے جس میں بچے پڑھ لکھ کر صرف ڈگری حاصل کرتے ہیں ، نمبروں کی دوڑ کی بجائے ہمیں بچوں کی مجموعی تربیت پر توجہ دینی کی ضرورت ہے، اس سے مراد ایک بچے کی سر سے لے کر پاؤں تک مکمل نشوونما اورتربیت ہے جس کو ’’Total child development‘‘ کہاجاتاہے،سب سے پہلے ذہنی ترقی ہے کیونکہ بچے کا ذہن ترقی یافتہ ہوگا تو وہ زیادہ بہترطریقے سے سیکھنے کے قابل ہوگااور اسے ذہن نشین کرسکے گا،اس کے بعد زبان کی ترقی ہے ، اس کی بدولت اپنا ما فی الضمیر بہتر اورموثرانداز سے بیان کیاجاسکتاہے، سماجی ترقی سے مراد معاشرتی اقدار کااحساس اور ان کی احیاء ہے ، اس کی بدولت ایک فرد حقیقی معنوں میں معاشرے کا ایک ذمہ دار فرد تصور کیاجاتاہے،جذباتی ترقی کا مطلب یہ ہے کہ ایک بچہ یا بچی بروقت اظہاررائے کے قابل ہوجائے اور اپنے احساسات کی صحیح ترجمانی کرسکے،اس کے ساتھ ساتھ جسمانی ترقی بھی ناگزیر ہے ، بچہ نہ صرف دماغی لحاظ سے ترقیافتہ ہو بلکہ جسمانی لحاظ سے بھی اپنی مثال آپ ہو، اس کے علاوہ بچے کی روحانی ترقی بھی ہونی چاہیئے، بچہ بااخلاق ہو اور مودب ہونے کے ساتھ ساتھ تمیز بھی رکھتا ہو۔

بچے کی مجموعی نشوونما اور تربیت میں جدید ٹیکنالوجی اور خاص کر میڈیا کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا،اس لئے بچوں کو جدید ٹیکنالوجی سے دور رکھنے کی بجائے انھیں اس کا صحیح استعمال سمجھائیں،عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ والدین چھ سے سات سال کی عمر میں اپنے بچوں کی تربیت سے غفلت برتتے ہیں تاہم اسی عمر میں بچوں کی بھرپور پرورش اور نگرانی کی ضرورت ہوتی ہے،اس دور میں انسانی شخصیت کا 80(اسی) فیصد حصہ پروان چڑھتا ہے لیکن بدقسمتی سے اسی دور کوہم انتہائی غیر سنجیدہ لیتے ہیں،والدین کو یہ غلط فہمی بھی ہوتی ہے کہ بچے ان کی نقل نہیں کرتے ، انھیں یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیئے کہ بچے ان کو 100فیصد کاپی کرتے ہیں کیونکہ بچے کے لئے سب سے اہم شخصیات ان کے والدین ہوتے ہیں، بچوں میں اپنے اقدار منتقل کیجئے اورا نھیں صحیح اور غلط راستہ کی پہچان کرائیں،روحانی اور مثالی تربیت تب ہوگی جب ہم خود اپنے جھوٹ کو بھی نہیں چھپائیں گے،ہم بدلیں گے تب ہی بچہ بدلے گا، ہم ہی اس کے آئیڈیل ہیں،اس کے لئے باہر کی دنیا کچھ نہیں ،والدین ہی بچے کے لئے سب کچھ ہیں،والد ذرا سی بات پر آگ بگولہ ہو اور بچے کو نصیحت کرے کہ غصہ کو کنٹرول کرو تو یہ دوغلا پن اور منافقت ہوگی۔

بچوں کے سامنے محتاط ا ور مہذب رہاکریں اور والدہ بھی محتاط رہے کیونکہ بچے ہر بات محسوس کرتے ہیں اور ان کو والدین کی تمام اقدار منتقل ہورہی ہیں ،والدین بچوں کو گھروں میں سیکھنے سکھانے کا ماحول فراہم کریں اور اس کے لئے بچوں کو کہانیاں سنائی جائیں،کہانی سناتے ہوئے آپ توقف بھی کریں اس سے آپ سمجھ جائیں گے کہ بچہ کتنی توجہ دے رہاہے،قرآن پاک بھی 80فیصد سے زائد سبق آموز کہانیوں پر مشتمل ہے کیونکہ کہانی کہانی میں بہتر طریقے سے سیکھاجاسکتاہے، کہانی سناتے وقت اس کے اخلاقی اور حقیقی پہلو ؤں کو مدنظر رکھیں اور کوئی بھی ایسی کہانی بچوں کو نہ سنائیں جس سے ان کے اخلاق بگڑنے کااحتمال ہو۔

والدین کو چاہیئے کہ اپنے گوناگوں مصروفیات میں کچھ وقت اپنے بچوں کے لئے بھی نکال لیا کریں کیونکہ والدین اور بچوں میں جتنے فاصلے بڑھیں گے نتائج اتنے ہی بھیانک اور سنگین ہوں گے اوروالدین کی لاپرواہی سے دلبرداشتہ بچے اپنے لئے کوئی اور آئیڈیل ڈھونڈیں گے،اب اگر والدکہیں اور مقیم ہو ، ملازمت یا کسی اور مجبوری کے تحت۔۔۔۔۔۔۔۔ تو ایسی صورتحال میں بھی انھیں اپنے بچوں سے رابطہ میں رہنا چاہیئے۔

بدقسمتی سے اکثر مائیں بچوں کو موقع دیتی ہیں اور انھیں کہتی ہیں کہ خیر کوئی بات نہیں ۔۔۔۔۔۔ وغیرہ،اس صورتحال میں بچے کی شخصیت متاثر ہوتی ہے اوروہ ایک طرح سے بری عادتوں میں پڑجاتا ہے ، والدین کو چاہیئے کہ اپنے بچوں سے کہیں کہ وہ ہر بات ان کے ساتھ شیئر کیاکریں اور ضرورت پڑنے پر ان کی اصلاح بھی کیا کریں،والدین اورخاص کر مائیں اپنے بیٹے اور بیٹی دونوں کا یکساں خیال رکھا کریں، بچوں کی خوراک کے معاملہ میں بھی والدین کو انتہائی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیئے اور انھیں سمجھنا چاہیئے کہ بچے کی ضرورت کیاہے؟۔۔۔

کھانے پینے کے معاملے میں دیکھا گیاہے کہ بچے اکثر لاپروہ ہوتے ہیں اور اپنی غذا کا خیال نہیں رکھتے اور عا م طور پرjunk food ( ہلکی غذا) کی جانب راغب ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی جسمانی نشوونما تباہ ہوجاتی ہے،والدین کو چاہیئے کہ وہ اپنے بچوں کوہرممکن حد تک وقت دیاکریں ،انھیں جواب دینے اور مطمئن کرنے کی کوشش کیاکریں، ان سے ان کی سطح کے مطابق سوال کیاکریں ،ان کو سنیں، صحت بخش غذائیں دیاکریں،ان کی پوشیدہ صلاحیتوں کو نکھاریں ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ دبائیں مت۔ انھیں ٹیکنالوجی کا مفیداستعمال سمجھائیں،جتنا ان کے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ ہوگا اتناہی وہ ترقی کرپائے گا،بچوں کو مثبت سرگرمیوں میں مصروف رکھیں،بچے سے غلطی ہوجائے تو اسے احساس دلائیں ۔۔۔۔۔۔۔ مگر پیار اور محتاط طریقہ سے ۔۔۔۔اور ان کی اصلاح بھی کریں ،دو تین بار ان کے ساتھ یہ دہرائیں گے تو وہ اپنے جذبات پر قابو پانے کے قابل ہوجائے گا،ہم اگر خود ٹیکنالوجی استعمال کررہے ہیں تو یہ اس کے لئے آئیڈیل ہوناچاہیئے،ہمیں اس پر بھی نظر رکھنی چاہیئے۔

بچوں کے ساتھ جتنا آپ کا رابطہ قریبی اور دوستانہ ہوگا اتناہی ٹیکنالوجی اور میڈیاکا استعمال مثبت اور سودمند ہوگا،والدین بچوں کو اپنے اقداربھی منتقل کریں ، والدین خود اپنے بڑوں کی قدر کریں ، بچے خود بخود ان کی اورآپ کی قدر کریں گے اور مؤدب بھی ہوں گے،والدین اور اساتذہ کو چاہیئے کہ بچوں سے متعلق تمام مسائل اور چھوٹی سی چھوٹی بات بھی پی ٹی ایم (والدین اور اساتذہ کی ملاقات) میں زیربحث لائی جائے اور جس طرح بچہ اہم ہوتا ہے اسی طرح پی ٹی ایم کوبھی معمولی نہیں سمجھنا چاہیئے۔

بچے خواہ جتنے بھی بڑے ہوجائیں والدین کی نظر میں وہ بچے ہی رہتے ہیں اس لئے والدین کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے بچوں کی مجموعی تعلیم وتربیت بھرپور طریقہ سے کرنی چاہیئے،جس طرح عالمی سطح پر 18 سال سے کم عمر کا ہر فرد بچہ ہوتا ہے پاکستان میں بھی اس قانون پر مکمل عمل درآمد یقینی بنانا چاہیئے اور کم از کم18 سال کی عمر تک بچوں کی پرورش میں والدین کو لاپرواہی نہیں برتنی چاہیئے ، ہمیں یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیئے کہ بچے ہمارا سب کچھ ہیں ، ہماری کل کائنات ان کے گرد گھومتی ہے،یہی ہمارا تابناک مستقبل اور روشن کل ہے،ہمیں بدلنا ہے اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کے لئے بدلناہے تب ہی ہمارا مستقبل تابندہ ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے