حضور آپ بس جوتے مروائیے

بس یہی کوئی صدیوں پرانی بات ہو گی کہ کسی ملک پہ ایک نیک اور صالح بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ ایک دفعہ دور کے ایک علاقے سے کچھ لوگ ایک وفد کی صورت اس کی خدمت میں حاضر ہوئے ، بادشاہ نے جب ان کی آمد کا مقصد پوچھا تو انہوں نے نہایت ادب سے عرض کی کہ : اے بادشاہ سلامت !!! ہماری دو بستیاں ہیں جن کے درمیان ایک دریا حائل ہے ، جس سے ہمیں دوطرفہ آمد و رفت میں بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، اگر حضور ہم پہ نظر عنایت کرتے اور ہمیں اس کے اوپر ایک پل تعمیر کرا دیتے تو ہمیں اس تکلیف سے نجات مل جاتی۔

بادشاہ نےاسی وقت محکمہ تعمیرات کو حکم صادر کیا کہ مذکورہ مقام پہ فورا ایک پل تعمیر کیا جائے۔ بادشاہ کا حکم تھا فورا کام شروع کر دیا گیا اور جلد ہی ایک نہایت شاندار پل تعمیر ہو گیا۔ وہاں کے لوگوں نے بادشاہ کا شکریہ ادا کیا اورخوب دعائیں بادشاہ کے حوالے کرتے چلتے بنے ۔

پل کی تعمیر کو ابھی بس چند ہی ماہ گزرے تھے کہ مشیروں کے ایک ٹولے نے بادشاہ سلامت کو رائے دی کہ حضور اس پل کے ایک طرف سے آمدورفت پہ ٹیکس لگا دیا جائے تاکہ اس ٹیکس کو اسی طرح کے مذید کاموں پہ استعمال کیا جا سکے ۔

بادشاہ کو یہ مشورہ بالکل پسند نہ آیا لیکن مشیروں کے بار بار تکرار سےتنگ آکر اس نے پل کے ایک طرف کی آمدورفت پہ بہت ہی قلیل سا ٹیکس لگا دیا۔ بادشاہ کاخیال تھا کہ اس سے وہاں کے لوگ چیخ و پکار کریں گے اور میرے پاس آئیں گے اور ان کی آمد کو جواز بنا کے میں ٹیکس معاف کر دوں گا لیکن جب ایسا کچھ نہیں ہوا تو بادشاہ قدرے متعجب ہوا۔

کچھ عرصہ مذید بیت گیا تو وزراء نے پل کے دوسری طرف سے بھی ٹیکس لگانے کی تجویز دی۔ اب کی بار بادشاہ کو پورا یقین تھا کہ وہ لوگ میرے پاس دہائی لے کر ضرور آئیں گے لیکن اسے ایک دفعہ پھر تعجب و حیرت کا سامنا کرنا پڑا۔ اب پل کے دونوں اطراف کی آمدورفت پہ ٹیکس لاگو ہو چکا تھا ۔ کچھ عرصہ مذید بیت گیا تو درباری امراء نے اس ٹیکس میں اضافے کی بات شروع کی۔ بادشاہ اس بات پہ رضامند نہیں تھا لیکن یہ دیکھنے کے لئے کہ ٹیکس میں اضافے سے ان لوگوں کا کیا ردعمل سامنے آتا ہے بادشاہ نے ٹیکس میں اضافے کا اعلان کر دیا۔ لیکن اب کی بار بھی وہ بے حس لوگ ٹس سے مس نہ ہوئے ۔

جب بادشاہ نے ان کی یہ بے حسی دیکھی تو اسے سخت تعجب کے ساتھ ساتھ غصہ بھی آیا اور اس نے کوتوال کو حکم دیا کہ پل کے دونوں طرف کچھ سپاہی تعینات کئے جائیں جو ہر آنے جانے والے کو دو دو جوتے ماریں۔ بادشاہ کے حکم کی فوری تعمیل کر دی گئی اور پل کے دونوں اطراف سپاہی تعینات کر دئے گئے جو ہر آنے جانے والے کو دو دو جاتے رسید کرتے۔ اب کی بار بادشاہ کا خیال تھا کہ وہ لوگ ضرور چیخ و پکار کریں گے لیکن اس دفعہ بھی بادشاہ کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔

بادشاہ نے غصے میں نہ صرف یہ کہ ٹیکس دوگنا کرنے کا اعلان کر دیا بلکہ ساتھ ساتھ جوتوں کی تعداد بھی بڑھا دی۔ کچھ دن بعد اسے یہ اطلاع ملی کہ پل والے علاقے سے کچھ افراد پہ مشتمل وفد بادشاہ سلامت کی خدمت اقدس میں حاضری کا طلبگار ہے۔

بادشاہ یہ سن کر بہت خوش ہوا ۔ اس نے دل ہی دل میں فیصلہ کر لیا کہ جب وہ لوگ ٹیکس کی بابت اور جوتوں کی بابت معافی کی بات کریں گے تو میں ان کا ٹیکس اور جوتوں کی سزا دونوں معاف کر دوں گا۔ کچھ ہی لمحوں بعد لوگوں کا ایک وفد دربا میں حاضر ہوا اور بادشاہ کی خدمت اقدس میں نہایت ادب و احترام سے سلام عرض کیا۔ بادشاہ سلامت نے جب آنے کا مدعا چاہا تو ان لوگوں نے عرض کی :

” بادشاہ سلامت ہم آپ کے پاس یہ عرضی لے کر آئیں ہیں کہ : پل پر تعینات سپاہیوں کی تعداد میں اضافہ کر دیا جائے تاکہ جوتے مارنے میں جلدی ہو سکے اور جوتوں کے انتظار میں جو وقت ضائع ہوتا ہے وہ نہ ہو "۔

آج کل شاید 2016 ہے ، زمانہ بدل گیا ہے پرانے لوگوں کی طرح اب ہمیں کیا زمین دیکھنی اور اناج اگانا ، ہمارے پاس نہ ہی زمین اور نہ ہی اناج لہذا ہمیں جوتے کھانے کی بھی کوئی جلدی نہیں ، ہم آرام و سکوں سے لائن میں لگے بس اپنی باری پر جوتے کھائے کھسکتے رہتے ہیں ۔

بادشاہ سلامت !!! آپ اپنا کام جاری رکھیے ، بادشاہ آپ ہی تھے ، ہیں اور رہیں گے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے