"مالک” اور "مالکوں” کی لڑائی

کچھ احباب متنازع فلم "مالک” پر پابندی کی حمایت میں یہ دلیل اور منطق پیش کرتے نظر آرہے ہیں کہ جناب اسکی کہانی میں” قانون ہاتھ میں لینے”ایسےسنگین اور حساس جرم کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ میرا سوال ہے کہ کیا کسی فلم میں ایسا پہلی بار ہوا ہے؟ اور کیا اب فلمی کرداروں کو بھی عدالتوں میں گھسیٹا جائے گا؟ ایسے بے مثال دلائل اور لاجواب منطق پیش کرنے والے اہل دانش دوست ہندی و ولایتی فلموں میں ہر طرح کی قانون شکنی بڑے ذوق و شوق سے دیکھتے ہیں۔ پھر ان سے کوئی پوچھے تو کہتے ہیں کہ فلموں، ڈراموں، افسانوں، کہانیوں اور شاعری کا تعلق ایک خیالی اور تصوراتی دنیا سے ہوا کرتا ہے، انہیں حقیقی زندگی کے معیارات اور ریاستی قوانین پر نہیں تولنا چاہئے۔ گویا وہ کریں تو فن کا نمونہ، یہ کریں تو سیاسی عظائم۔ ایک شکوا یہ بھی کیا جارہا ہے کہ اگر ملک میں افوجِ پاکستان کی کارکردگی پر سوالات نہیں اٹھائےجاسکتے تو پھر غریب سیاستدانوں کو کیوں رگڑا جاتا ہے، گویا ڈاکوں پر ہاتھ نہیں ڈال سکتے تو چور کیوں پکڑتے ہو۔

میں نے مذکورہ فلم نہیں دیکھی ہے لیکن سنا ہے کہ اسکے بنیادی خیال میں "سیاست دان” بدعنوان، نااہل اور عیاش ہیں۔ میں اس موضوع سے ہرگز متفق نہیں ہوں لیکن میرے اتفاق اور اختلاف سے قطع نظر موضوع کی عوامی شہرت مسلمہ ہے۔ اس اعتبار سے یہ موضوع ہمارے یہاں ایسا فارمولا ہے جس پر کوئی بھی کامیاب فلم یا ڈرامہ باآسانی تیار ہوسکتا ہے۔ چنانچہ ناصرف ہمارے یہاں بلکہ پڑوسی ملک ہندوستان میں بھی اس فارمولے پر بننے والی درجنوں فلموں کے نام انگلیوں پر گنوائے جاسکتے ہیں ۔اس فلم کی جو کہانی میں نے سنی ہے اسکے مطابق ایک نجی سیکورٹی کمپنی کا مالک ریٹائرڈ ایس ایس جی کمانڈو حب الوطنی کے غم میں مبتلا ہے ۔ ملک کے روز بروز بگڑتے ہوئے حالات دیکھ کر اس کا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ چنانچہ وہ حکومت کے متوازی ایک خفیہ نیٹ ورک کے ذریعے وطن عزیز کی خدمت اور عوام کی مدد کرنے کی ترکیب نکالتا ہے۔ اتفاق سے اسکی کمپنی کو وزیراعلی کی حفاظت کا ٹھیکہ ملتا ہے۔ فلم کے آخری حصے میں یہ ریٹائرڈ افسر وزیراعلی کے کالے کرتوتوں سے تنگ آکر اسے گولی مار دیتا ہے۔ خس کم، جہاں پاک۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ اس فلم میں ممتاز قادری کے طرزعمل کی بھی بلواسطہ حمایت کی گئی ہے۔ فلم کے ہدایت کار، مصنف اور مرکزی کردار عاشر عظیم اس الزام کی تردید کرتےہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے یہ کہانی اس واقعے سے کئی برس قبل تحریر کی تھی اور وہ نہیں سمجھتے کہ انکی فلم میں ایسی کوئی حمایت پوشیدہ ہے۔ عاشر عظیم دو دہائی قبل پاکستان ٹیلی ویژن کے معروف ڈرامے "دھواں” کے لئے شہرت رکھتے ہیں۔ اس شہرہ آفاق ڈرامے میں بھی وہ ذاتی حیثیت میں اپنے چند دوستوں کے ساتھ ملکر جرائم پیشہ افراد کے خلاف مختلف کاروائیوں کرتے تھے۔ لیکن سوال پھر وہی ہے کہ کیا یہ تصور فلموں اور ڈراموں میں نیا ہے؟ کیا کہانیوں اور شاعری میں اچھائی اور برائی کے پیمانوں کی خیالی تصویر کشی کو بھی مملکت کے معروضی و عائلی قوانین کے تابع کیا جانا چاہئے؟ کچھ اہل دانش اس سوال کو بہرحال اہم سمجھتے ہیں انکے مطابق آزادی اظہار رائے کی آڑ میں کسی بھی منفی ذہن سازی کو روکنا چاہئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فلم اور کہانیوں کے جذباتی و خیالی انداز اور اسلوب کو نظرانداز کرکے، اس مبینہ اور ممکنہ منفی ذہن سازی کی تشخیص کون اور کن خطوط پر کرے گا اور کسی غیر ضروری تادیبی کاروائی کے نتیجے میں تخلیقی عمل کو ہونے والے نقصان کا ذمہ دار کون ہوگا۔

البتہ ایک سنجیدہ الزام یہ ہے کہ اس فلم کو آئی ایس پی آر نے اسپانسر کیا ہے۔ عاشر عظیم اس الزام کو بھی مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم نے فوج سے صرف لاجسٹک سپورٹ لی ہے۔ اس سپورٹ سے قبل طریقہ کار کے عین مطابق ذمہ دار افسران نے اسکرپٹ تو ضرور دیکھا ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ کل اگر کوئی صاحب چیف منسٹر کے بجائے چیف اوف آرمی اسٹاف کے لئے ایسی فلم بنا لائیں تو آپ اْسے لاجسٹک سپورٹ فراہم کریں گے؟ سینسر بورڈ کے طریقہ کار اور ان پابندیوں سے شدید اختلاف اپنی جگہ لیکن یہ بھی درست ہے کہ متنازع اور حساس موضوعات پر بننے والی فلموں کو کسی بھی ریاستی ادارے کا تعاون حاصل نہیں ہونا چاہئے۔ صوبہ سندھ میں "مالک” دیکھانے پر اچانک پابندی اور پھر فورا ہی اس پابندی کی اٹھائے جانے کے اگلے ہی لمحے وفاقی حکومت کی طرف سے اسےپورے ملک قلعدم قرار دینے پر استاد وسعت اللہ خان تبصرہ کرتے ہیں کہ "فلم مالک کے ساتھ جو ہوا وہ عجب طوائف الملوکی کی گجب کہانی ہے جس میں ہر ریاستی ادارہ اپنا ’مالک‘ خود ہے۔ پھر بھی نیشنل ایکشن پلان پر سب ایک ہیں سب نیک ہیں۔ یہ کہانی بذاتِ خود ایک بلاک بسٹر فلم کا مصالحہ ہے”۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے