حفاظتی ٹیکوں کا چکر کیا ہے ؟

ننھے مہمان کے استقبال کے لئے تمام تیاریاں مکمل تھیں ۔بچوں نے غبارے ، پھولوں ، اور گفٹس سے کمرہ سجا رکھا تھا ۔اور پھر وہ لمحہ بھی آن پہنچا جب ماں اپنی آغوش میں خوبصورت اور صحت مند بچے کو لئے داخل ہوئی ۔ وقت گزرتا گیا ، بچہ پروان چڑھتا رہا ۔لیکن اس کی صحت پہلے جیسی نہ رہی ۔دن بدن کمزوری اور بیماریوں کے حملے ۔وجہ یہ تھی کہ حفاظتی ٹیکوں کا کورس مکمل نہ کرایا جاسکا ۔بس پیدائش پر اسپتال میں جو ٹیکے لگ گئے اسی پر اکتفا کیا گیا ۔حفاظتی ٹیکوں کا کورس کتنا ضرور ی تھا یہ سمجھنے میں والدین نے اتنے سال گزرادئیے کہ بچہ معذور ہو گیا ۔

یہ کہانی وفاقی دارلحکومت کے ایک نواحی علاقے کی ہے ،لیکن ایسی بے شمار کہانیاں ہمارے اردگر بکھری پڑی ہیں ۔والدین کی لاپروائی سے اس ملک کے لاکھو ں بچے ان متعدی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں جو دنیا کے دوسرے ممالک سے بتدریج ختم ہو رہی ہیں ۔

ماہرین اطفال کہتے ہیں کہ پاکستان میں حفاظتی ٹیکوں کے کورس اور ویکیسنیشن سے بچوں کی 27 فی صد شرح اموات پر قابو پایا جاسکتاہے ۔چائلڈ اسپشلسٹ ڈاکٹر مسرت حسین کہتے ہیں کہ بچوں میں جان لیوا بیماریوں پر قابو پانے میں سب سے کارآمد طریقہ ہے حفاظتی ٹیکوں کا کورس ، جوبچوں کو 12 خطرناک بیماریوں سے بچاتا ہے ۔ان میں تپ دق ، چیچک ،پولیو ،نمونیا ، خسرہ ، خناق ، تشنج ،کالی کھانسی ،روبیلا ،ممپس ،ہپاٹائٹس بی اور ہیمو فیلس انفلوائنزٹائپ بی شامل ہیں ۔لیکن پاکستان میں9 خطرناک بیماریوں کے خلاف بین الاقوامی امدادی اداروں کے تعاون سے حفاظتی ٹیکہ جات کا کورس کرایا جاتاہے ۔

پیدائش سے پانچ سال کی عمر کے بچوں کو اگر ویکسینشن اور حفاظتی ٹیکہ جات نہ لگوائے جائیں تو کئی قابل علاج بیماریوں کا وبائی شکل اخیتار کرنے کا بھی خطرہ ہے ۔ان میں پے درپے بیماریوں کے حملے ،جسمانی و ذہنی معذوری اور موت تک واقع ہو سکتی ہے ۔ماہر اطفال ڈاکڑمظہر حسین راجا کہتے ہیں 2000 سے 2013 کے دوران خسرے سے ہونےوالی اموات میں 75 فی صد کمی ، انفلوائینزہ سے 60 فی صد ، جب کہ پولیو کے کیسز میں 99 فی صد کمی آئی ہے ۔

لمحہ فکریہ ہے ان والدین کے لئے جوویکیسن سے متعلق توہمات کا شکار ہو کر اپنے پھول سے بچوں کو اس سے محروم رکھتے ہیں ۔اگر حفاظتی ٹیکے بچوں کے لئے نقصان دہ ہوتے یا ان کے سائیڈ ایفکٹس ہوتے تو32 سالوں سے جاری حفاظتی ٹیکہ جات کا کورس کب کا بند کرا دیا جاتا ۔بچوں کی صحت سے متعلق والدین اگر روایتی باتوں کو بھلا صرف ڈاکٹرز کی ہی مان لیا کریں تو نسلوں کو تحفظ دینا کچھ زیادہ مشکل نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے