عالیشان محل میں رہنے والاسیٹھ

ایک بڑی سے گاڑی مزدوروں کے پاس آکر رکی تو سفید لٹھے کا سوٹ پہنے ، آنکھوں میں برانڈڈ گلاسز لگائے ،منہگی جوتے پہنے ایک شخص اترا تو اسے دیکھتے ہی تمام مزدور اسکی طرف لپکے ۔سیٹھ صاحب بولےمجھے اپنے گھر کا سامان دوسری جگہ منتقل کرنا ہے کتنے پیسے لوگے ؟بھاو تاو شروع ہوا توفائنل یہ ہوا کہ تین مزدور جائیں گے جو پانچ سو روپیہ فی کس لیں گے۔مزدور گاڑی میں بیٹھنے لگے تو سیٹھ صاحب بولے میرے پیچھے پیچھے اس ٹیکسی میں آو گاڑی میں پیٹھنے کی اوقات نہیں ہے تمہاری ،تہمارے میلے کچیلے کپڑوں سے میری گاڑی کی سیٹیں گندی ہوجائیں گی۔

مزدور ٹیکسی میں سوار ہوئے اور سیٹھ صاحب کے گھر پہنچے تو تین منزلہ گھر کی شان و شوکت دیکھ کر آنکھیں دنگ رہ گئیں اور سیٹھ کہ مقدر پہ رشک کرنے لگے ۔سیٹھ مزدوروں کو تیسری منزل پہ لے گیا ،مزدوروں نے جب سامان دیکھا تو بولے سیٹھ صاحب یہ تو زیادہ سامان ہے آپ نے کم سامان بتایا تھا تو سیٹھ بولا کہ کام کرنا ہے تو کرو ورنہ اپنے خرچے پرٹیکسی کراو اور واپس چلے جاو ۔

مرتے کیا نہ کرتے مزدوروں نے سامان اتارنا شروع کیا دوپہر کا وقت ہوا تو گھر سے طرح طرح کے پکوانوں کی خوشبونے پسینہ بہاتے مزدورں کی بھوک کو مزید چمکا دیا لیکن کوئی ان سے روٹی کا پوچھنے نہ آیا اور وہ بھوکے پیاسے اپنا کام کرتے رہے۔ انہیں میں ایک مزدوررشید بھی تھا جسکے گھر میں پچھلے دو دن سے فاقے چل رہے تھے ۔ رشید شیشیے کے برتن اتار رہا تھا کہ اس دوران ڈبے سے شیشے کا ایک گلاس نکل کر زمین پر آگرا،ٹوٹنے کی آواز سن کر سیٹھ باہر بھاگا اور رشید پرچلانا شروع کردیا رشید نے معافی چاہی لیکن سیٹھ صاحب ایسے کہاں ماننے والے تھے اسکی مزدوری سے دو سو روپے کاٹنے کا عندیہ دے دیا۔رشید اور اسکے باقی ساتھیوں نے منت سماجت کی لیکن بے سود۔

شام کو کام ختم ہوا مزدورں نے اپنی اپنی مزدوری لی اور گھروں کو چل دیے ۔رشید گھر پہنچا تو پتہ چلا کہ بیٹی کو بخار ہے لے کر ڈاکٹر کے گیا تو سارے دن کی محنت کی کمائی وہاں لگا دی اور آج پھر گھر میں فاقہ رہا۔

یہ کہانی ایک رشید کی نہیں ہے نہ جانے ہمارے گرد بسنے والے کتنے مزدورں کی ہے ۔کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ رشید کے گھر فاقے کی زمہ دار حکومت ہے ، انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں ہیں یا وہ سیٹھ کہ جسے اللہ نے اپنی بیش بہا نعمتوں سے نوازا لیکن وہ اپنی گاڑی پہ مزدورں کو بیٹھانے کے لیے تیار نہیں ، خود تو طرح طرح کے پکوان کھارہا لیکن جن مزدوروں کو کام کے لیے لے کر گیا انہیں پوچھنا تک گورا نہیں کیا ، ایک معمولی سا گلاس ٹوٹنے سے اسکی تقریبا آدھی مزدوری منخ کر ڈالی ۔

کیا ہر کام کو ٹھیک کرنا حکومت کی زمہ داری ہے ؟

کیا ہماری کوئی زمہ داری نہیں ؟

ہم کسی بڑے شاپنگ مال میں جائیں تو مارکیٹ کے مقابلے میں وہاں دس گنا مہنگی چیز ملے ہم بغیر ہچکچاہٹ لے لیں گے لیکن اگر کسی ریڑھی والے سے کچھ لینا ہو کسی مزدور سے کام کرانا ہو تو بھاو تائو شروع کردیتے ہیں ۔

خدارا پہلے اپنے آپکو بدلیے ہر کام ریا ست کہ زمہ ڈال دینے سے بات ختم نہیں ہوتی ۔

مزدوروں کی عالمی تنظیم آئی ایل او کے مطابق اس وقت دنیا کے مزدوروں کا 20 فیصد حصہ غربت کی نچلی سطح پر زندگی گزار رہا ہے جبکہ 40 فیصد غربت کے ساتھ مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔

آئی ایل او کے اعداد وشمار کے مطابق دنیا کی 47 فیصد آبادی محنت کشوں پر مشتمل ہے جس کا 60 فیصد مرد اور 40 فیصد خواتین ہیں اور پاکستان میں تقریبا 33فیصد آبادی محنت مزدوری کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پالتی ہے ۔اگر یہ مزدور نہ ہوں تو آپکو اپنے گھر کا سامان بھی خود اٹھانا پڑے ، کوڑا کرکٹ پھینکنے کے لیے بھی خود جانا پڑے ، بازار سے سبزی بھی خود لانی پڑے غرض کہ ہر وہ کام جو آپکے سٹیٹس کو گوارا نہیں وہ خود کرنا پڑے لہذا انکی قدر کیجیے۔ آج مزدوروں کے عالمی دن کے موقع پر یہ عہد کیجیے کہ ہم سب سے پہلے خود کو بدلیں گے کسی مزدور سے بے جا بھاو تاو نہیں کریں گے اسکی عزت نفس مجروح نہیں کریں گے اسکا استحصال نہیں کریں گےشاہد اسی طرح ہم معاشرے کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے