پاکستان ٹائمز کو بھی انہی طاقتوں نے تباہ کیا تھا

[pullquote]یہ کالم 5 دسمبر 2017 کو روزنامہ آزادی سوات میں چھپ چکا ہے.[/pullquote]

ایک دور وہ بھی تھا جب ایک روز پاکستان ٹائمز (جو کہ اس وقت کا سب سے مشہور اخبار تھا) کے مالک میاں افتخار الدین، اخبار کے ایڈیٹر مظہر علی خان صاحب کے پاس آئے اور درخواست کی کہ چوں کہ محترمہ فاطمہ جناح ان کے گھر تشریف لا رہی ہیں، ان کی خواہش ہے کہ اس ایونٹ کی بھرپور کوریج ہو۔ خان صاحب نے کہا کہ جو ایونٹ جتنا اہم ہوگا، اس کی کوریج اس کے حساب سے ہی ہوگی۔ اور ہوا بھی یوں، اس ملاقات کی ایک بھی تصویر اخبار میں نہیں لگی۔

یہ ادارتی آزادی کے وہ ضابطے تھے جن کا گذشتہ دور کے عالم صحافی بہت خیال رکھتے تھے۔ آج کے دور میں یہ ضابطے، صحافی تنظیموں اور اداروں کے منشور تک میں بھی نظر نہیں آتے۔ اس بات سے میرا مقصد افتخار الدین صاحب کو بُرا پیش کرنا نہیں ہے۔ سینئر صحافی اکمل گھمن صاحب اپنی ایک کتاب ’’میڈیا منڈی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ میاں افتخار الدین پی پی ایل کے اخبارات کی پالیسی پر اثر انداز نہ ہونے کے اصول پر کاربند تھے۔
خیر مجموعی طور پر ایسا بالکل بھی نہیں تھا کہ پہلے کے صحافتی ادوار بہت مثالی تھے اور تب صحافیوں اور اداروں کو مسائل نہیں ہوا کرتے تھے۔ یہ ملک جب سے معرضِ وجود میں آیا ہے، ایک عام پاکستانی صحافی کارکُن تو تب سے ہی استحصال کا شکار ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے اس ملک میں زندگی کے باقی تمام شعبوں سے منسلک ہر عام آدمی ہے۔ چوں کہ تمام انڈسٹریز پر سرمایہ داروں کی اجارہ داری کی تقسیم کا وقت تھا، تو اخبارات بھی سیٹھوں اورسرمایہ داروں کے ہاتھ لگ گئے۔ یہی وہ بنیادی بات ہے جس کی وجہ سے صحافت کو شروع دن سے ہی سرمایہ داروں کے دوسرے ’’کاروباروں‘‘ کو تحفظ دینے والے ’’کاروبار‘‘ کے طور استعمال کیا جانے لگا۔ بہت کم لوگ ایسے تھے جو ’’عالم صحافی‘‘ تھے اور اخبار ان کے ہاتھ لگا دیا گیا تھا، مگر وہ بھی کیا کرتے؟ تنخواہوں کے معاملے میں تو وہ بھی دیگر لوگوں کی طرح تھے۔ صحافی کارکنوں کی تنخواہیں بہت ہی کم ہوا کرتی تھیں۔ کوئی ویج بورڈ نہیں تھا۔ مولانا ظفر علی خان ہوں یا زمیندار کے حسرت صاحب، مالکان سب کے ایک ہی جیسے تھے۔ کسی کو آٹھ آنے، کسی کو دو آنے اور کسی کی اپنی مرضی سے ایک روپیہ تنخواہ لگا دی گئی۔ اخبار کے مالکان کو کوئی ویسے بھی پوچھنے والا تو تھا نہیں۔ سیٹھوں نے تو بھئی، میڈیا میں اپنا اثر و رسوخ اس لئے بڑھایا کہ وہ اس کے ذریعے اپنے مفادات کا تحفظ کرسکیں۔ اکمل صاحب ایسے لوگوں کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’یہ لوگ اپنے کالے کرتوتوں کو چھپانے کے لئے میڈیا کو بطور ڈھال استعمال کرتے ہیں۔ سرکار کے دربار سے انعامات پاتے ہیں اور مرنے کے بعد ولی اللہ کا درجہ بھی پالیتے ہیں۔ ان کی نام نہاد صحافتی خدمات پر کتابیں لکھی جاتی ہیں۔ یونیورسٹیاں ان ہستیوں پر توصیفی تھیسز کرواتی ہیں۔ مجال ہے کہ صحافت کے ان ٹھیکیداروں پر کوئی چار تنقیدی حرف لکھ دے اور اگر لکھ بھی دے، تو چھاپے گا کون؟‘‘

اُس دور میں تو ترقی پسندوں کی تنظیم ’’پی پی ایل‘‘ کا بھلا ہو جس نے تنخواہیں صرف وقت پر دلوانے کی تحریک اپنے ہی اداروں سے شروع کی اور ’’پاکستان ٹائمز‘‘ جیسے اخبارات میں تب سے ملازمین کو وقت پر تنخواہیں ملنے کا کم از کم ٹرینڈ شروع ہواتھا۔ لیکن افسوس یہ کہ اُسی ’’پی پی ایل‘‘ کا ریاست نے سیاسی اور نظریاتی اختلافات کی بنیادوں پر وہ حشر کیا کہ اُس کا آج کوئی نام لیوا تک نہیں۔

میں اکثر اپنے دوستوں سے اس موضوع پر بات کرنا چاہتا ہوں، مگر کیا ہے کہ کسی کو اس موضوع میں دلچسپی ہے اور نہ ان کو میری طرح گڑے مردے اکھاڑنے کا شوق ہے۔ میں نے اس بارے میں اپنے اساتذہ سے بھی بات کرنے کی کوشش کی مگر بے سود۔ کسی کو معلوم ہی نہیں کہ ایسے کسی نام کے اخبار کی ہمارے ہاں کوئی تاریخ بھی ہے۔ معلومات کے حصول کی بابت انٹرنیٹ کی مدد لی، تو وہاں 1902ء میں چھپنے والے نیویارک ٹائمز کے شمارے سے لے کر جھنگ کے مقامی ہفتہ وار اخبار کی 1938ء کی نکلی ہوئی کاپی، 1940ء میں جنگ کی پہلی چھپی ہوئی کاپی حتیٰ کہ ڈان اخبار کی شروع سے لے کر آج تک کی تمام اہم کاپیاں ریکارڈ میں ملیں، مگر نہیں ملیں تو ’’پاکستان ٹائمز‘‘ کی ایک کاپی تک نہیں ملی۔ نہ زمیندار اور امروز اخبارات کی کوئی نشانی ہی ملی۔

یاد رہے کہ پاکستان کا سب سے پہلا انگریزی اخبار جو کہ لاہور سے نکلتا تھا ’’پاکستان ٹائمز‘‘ ہی تھا، مگر ہمارے ہاں چونکہ تاریخ اپنے منشا کے مطابق ڈیزائن کی گئی، تو اس کی زد میں پھر بہت سی چیزیں آئی ہیں۔

ایک سازشی تھیوری ہے جس کے مطابق پاکستانی آئین میں پہلی ترمیم سعودیہ کے شدید پریشر پر کی گئی جس کے مقاصد یہاں بیان کرنے لائق تو نہیں مگر یہ بات اس لئے رقم کرنا ضروری تھی کہ پاکستان جب سے بنا ہے، یہاں اپنی مرضی سے ریاست بہت کم چیزیں عمل میں لاتی ہے۔ یوں کہہ لیں کہ ہمارا اپنا کام خود کرنا ہمارے اپنے مفاد میں ہی نہیں ہوتا۔

جن دنوں امریکہ نے ہمارے ہاں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا شروع کیا، تو ’’پاکستان ٹائمز‘‘ اس وقت امریکہ سے دوستی کے بڑھتے تعلقات کو تنقید کا نشانہ بناتا تھا جس سے دو طرفہ تعلقات شدید متاثر ہوتے تھے۔ اس وقت اخبار کو تنبیہ دی جاتی رہی مگر کیوں کہ اخبار والے سمجھوتا صحافت کے علمبردار نہیں تھے، اس لئے ریاستی جبر کا شکار ہوگئے۔

اس حوالہ سے اکمل گھمن صاحب اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ایوب خان کے مارشل لا لگانے کے چند ماہ بعد ہی یعنی 18 اپریل 1959ء کو پاکستان سیکورٹی ایکٹ کے تحت پاکستان ٹائمز سمیت پی پی ایل کے تحت چھپنے والے تمام اخبارات کو حکومتی تحویل میں لے لیا گیا۔ اور قارئین، آپ اس کا خود اندازہ کرلیں کہ اس اخبار کے ساتھ ہوا کیا ہوگا جس کا آج کوئی نام لینے والا تک نہیں ہے؟

یہ جان کر بھی قارئین کو حیرت ہوگی کہ پاکستان ٹائمز اخبار آج بھی ہمارے ملک کے ایک بڑے ادارے کے تحت بطورِ ’’ڈمی اخبار‘‘ چھپ رہا ہے، مگر اس کی خبر کسی کو کیوں نہیں ہے؟ میرا جواب ہے کہ میری تحقیق کے مطابق اس لئے نہیں ہے کہ آخری بار جب مذکورہ اخبار ’’نیلام‘‘ ہوا، تو اس کو ملک کے ایک بڑے سیٹھ میر شکیل نے سیاسی بنیادوں پر خریدکر غیر فعال کردیا۔اس میں سیٹھ صاحب کا سب سے بڑا مفاد ان کا پہلے سے بزنس کرنے والا انگریزی اخبار ’’دی نیوز‘‘ تھا جس کے مقابلے میں سیٹھ صاحب کسی اخبار کو آنے نہیں دینا چاہتے تھے۔ انہوں نے اخبار کر ’’لاٹھی بھی نہ ٹوٹے اور سانپ بھی مرجائے‘‘ کے مصداق راستہ ہی ہموار کر دیا۔ اس کے تمام تر اثاثے آج جنگ اور انگریزی اخبار ’’دی نیوز‘‘ کے زیر استعمال ہیں۔ یوں ’’پاکستان ٹائمز‘‘ آج سانس لے رہا ہے مگر اس کا وجود منظر عام سے غائب ہے۔

تحقیقاتی صحافی اکمل گھمن صاحب کے مطابق جیو ٹی وی کے لاہور کے دفتر کی عمارت میں مذکورہ اخبار کی بوریوں میں بند تاریخ کو نجانے کس کباڑ خانے کی نذر کیا گیا ہوگا؟

کتاب میں میڈیا کی تمام کڑوی حقیقتوں کے ساتھ ’’پاکستان ٹائمز‘‘ اور ’’پی پی ایل‘‘ کا بہت تفصیلاً جائزہ لیا گیا ہے جو کہ ہماری صحافت کی تاریخ کا ایک خاموش باب ہے جس کا پتا آج کل کے جرنلزم کے طلبہ کو ہونا نہایت ضروری ہے۔ میں کتاب کے مصنف جناب اکمل شہزاد گھمن کا نہایت ممنون ہوں کہ انہوں نے دھول کی نذر کی گئ تاریخ پر سے گرد اُڑا کر ہم تک سچ کی رسائی ممکن بنائی ہے۔ ہمارے لئے آج کے دور کی صحافت کو سمجھنے کے لئے ماضی کے ادوار کو پڑھنا نہایت اہم ہے۔ آج کے دور کی نام نہاد صحافتی تنظیموں میں آزادیِ رائے کا تحفظ تو شائد اس لئے اہم ہو کہ اس سے ’’سیٹھ‘‘ کا کاروبار منسلک ہے، مگر ہماری زیادہ تر تنظیموں کی آواز اس وقت دبا دی جاتی ہے، جب سیٹھ جوتی کی نوک پر رکھے گئے صحافی کارکنوں کو اپنے ادارے سے بغیر تنخواہ دئیے نکال دیتا ہے۔ ان سے کوئی سوال کرنے والا آج تک پیدا نہیں ہوا۔ ہاں، ان کا تحفظ کرنے والے آج کل کے بہت سے سینئر صحافی اپنے سیٹھ کے کاروبار کو بچانے کے لئے آزادیِ صحافت کا راگ الاپتے نظر ضرور آتے ہیں۔

پچھلے دنوں حامد میر صاحب کا میڈیا کو ’’بلیک آؤٹ‘‘ کرنے کے ردعمل میں ٹویٹ پڑھ کر ذہن میں کچھ سوالات نے جنم لیا۔ وہی نہیں ہمارا تمام تر صحافی طبقہ آزادیِ صحافت کے نام پر اپنے سیٹھ کے کاروبار کا تحفظ تو کرتا ہے، مگر ادارتی آزادی سمیت صحافی کارکنان کی آفیشل سیلری ویج کے بارے میں آواز بلند کرنے سے انہیں کیا خطرات لاحق ہوجاتے ہیں؟ اگر سیٹھ کا ادارے سے نکال دینے کا ڈر ہے، تو یہ اتنی ساری یونینز کیوں بنا رکھی ہیں؟ کیا یہ یونینز بھی سیٹھوں کے زیر اثر ہیں؟

خیر، یہ معاملات کوئی آج سے نہیں بڑے عرصے سے یونہی بگاڑ کا شکار ہیں۔ ہمارے ملک کے تمام بڑے معاملوں پر سیٹھ کی ہی اجارہ داری قائم ہے جس کا زور کوئی توڑنے پر آئے تو تبھی ٹوٹے۔ برطانوی اخبار ’’دی گارڈئین‘‘ نے سیٹھ کے چنگل سے نکلنے کا مستقل حل اپنی ریڈرشپ سے چندے کی صورت میں میں نکالا ہے۔انہوں نے اپنی ویب سائٹ پر ایک ایڈ لگا رکھا ہے جس میں عوام سے اخبار کو چندہ دینے کی اپیل کی گئی ہے اور یہ بولڈ الفاظ میں لکھا ہوا ہے کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہم اپنی صحافت کے معیار کو برقرار رکھتے ہوئے یونہی معاشرے کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں اور آزادانہ طور پر خبر اکٹھی کر کے آپ تک پہنچاتے رہیں، تو ہماری مدد کریں۔ مجھے یہ طریقہ بہت دلچسپ اوراپنے معاشرے کے لئے موزوں بھی لگا۔

ہاں، اس سے یہ ہوگا کہ کاغذ کوٹا، سیاہی کی فروخت، حکومتی اشتہارات سمیت سیاستدانوں اور ایجنسیوں کے بل بوتے پر چلنے والے سیٹھ کے دھندے اورکاروبار سے صحافت دوبارہ ایک مقدس پیشہ بننے کی جانب گامزن ہوسکتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے