ہاتھوں میں قلم رکھنا ۔۔۔ یا ہاتھ قلم رکھنا

خالد اندرونِ سندھ کا نڈر اور سر گرم صحافی تھا، کسی بھی معاملے کی گہرائی تک تحقیقات کر کےسچائی کوعوام کے سامنے بے نقاب کر کےصحافت پر لگے بدعنوانی کے دھبوں کو دھونے کی کوشش کرتا رہا۔ ایسے میں اس نے دوست کم اور طاقتور دشمن زیادہ بنائے۔ جس کا شاخسانہ ایک طاقتور سیاسی پارٹی کاخالدپر تشدد موت کی صورت میں نکلا ۔

یہ سانحہ پاکستان میں ہونے والے بہت سے صحافیوں کے قتل اور کئے جانے والے تشدد میں سے ایک ہے۔ظلم کے اوپر ظلم یہ ہے کہ چند نجی نیوز چینلز نے یہ ریت بنا لی ہے کہ اپنے رپوٹروں کی موت بیچنےلگے ہیں۔ متعلقہ پارٹی کو بلیک میل کر کے ان سے رقم ہتھیاتے ہیں، پھر اس رقم کا بڑا حصہ خود رکھ کر کچھ رقم مقتول صحافی کے خاندان کو دے کر چپ کروا دیا جاتا ہے۔ پارٹی بھی احتساب و عتاب سے بچ جاتی ہے ، ساتھ ہی ساتھ چینل کی کمائی بھی ہو جاتی ہو اور لواحیقین کو پیسے دے کرضمیر سے بوجھ بھی ہٹ جاتا ہے۔

سنہ 2000 سے لیکر 2015 تک پاکستان میں کل 104 صحافیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا ۔ جس میں کے پی کے ، بلوچستان اور سندھ سر فہرست ہیں ۔ لیکن وجوہات ہر علاقے اور ہر قتل کی مختلف ہیں ۔

سنہ 2000 سے 2015 تک پاکستان میں قتل ہونے صحافیوں کی تعداد کچھ اس طرح ہے

Journalist killed list

عوام کے سامنے حق گوئی کرنے میں انھیں مختلف سیاسی ، سماجی اور مزہبی جماعتوں کی طرف سے جان، مال ،خاندان کے حوالے سے ہراساں کیے جانا،تشدد، اغوا، ذہنی اذیتیں /دھمکیاںاورتحفوں کی صورت میں رشوت، آزادانہ نقل و حرکت پر پابندی،، ٹارگٹ کلنگ، خود کش دھماکوں میں مارے جانا اور ہر لمحے حکومتی سیاسی اداروے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے بھی دباؤ میں رہنا۔۔۔۔ جیسے کڑے امتحانات سے گزرنا پڑتا ہے۔ ان حالات میں بہت سے صحافی دلبرداشتہ ہو کر اپنے پیشے کو خیر آباد کہہ چکے ہیں تو بہت سے بد عملی و رشوت ستانی کی راہ پر چل پڑے ہیں۔ آج اس پیشے میں کم مگر مضبوط کردار اور باضمیر صحافی افراد ہی پاکستانی صحافت کی ترقی کے لیے کوشاں و متحرک نظرآتے ہیں۔

اور قابل داد ہیں وہ لوگ جو اس سفر میں اپنی انگلیوں کو قلم کر کے اپنی زندگی کو دھیرے دھیرے سلو پوائزن کی طرح کسی مقصد کے لئے وار دیتے ہیں ۔ ۔۔۔اور سچ کو جاننے اور پہچاننے کے اس سفر میں شمع کی مانند ہم جیسوں کو تاریک راہوں میں اجالوں کا پتہ دیتے ہیں ۔ ایسے با ضمیر لوگ آج کے گئے گذرے زمانے میں صحافت کے آسمان پر چمکتے ہوئے ستارے ہیں ۔۔۔ جن کی کرنوں سے آنے والوں نے اپنے آپ کو منور کرنا ہے ، یا شاید آج کے اس نفسا نفسی کے دور میں ایسے لوگ اس زمین کا نمک ہیں ۔۔۔۔ جن کی وجہ سے صحافت کے ذائقے کو بقا اور دوام حاصل ہے ۔

حکومت اور اربابِ اختیار کا رویہ ایک جانب اور رائے سازی کے ان اداروں کا رویہ اپنےہی نمائندوں اور رپوٹروں کے ساتھ عدم توجہی کا شکار ہے۔مقامی پرنٹ اور الیکٹرونک ذرائع ابلاغ کے حالات زیادہ خراب ہیں جہاں صحافیوں کو تنخواہیں دینے کے بجائے ، ان سے ہی اسپانسر اور اشتہارات لانے کی شرط رکھ دی جاتی ہے۔ بڑے شہروں جیسے کراچی، کوئٹہ ، لاہور، پشاور میں صحافیوں کی تنخواہیں نسبتاً بہتر ہیں مگرعموماً مہینوں کی تاخیر سے ادا کی جاتی ہیں۔نتیجاً صحافیوں کو کنبے کے اخراجات پورے کرنے کے لیے جز وقتی ملازمت یا کاروبار کا سہارا لینا پڑتا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق سال 2002 تک پاکستان میں 2 ہزار کے قریب صحافی رجسٹرڈ تھے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں دی جانے والی جزوی خود مختاری کے بعد،2014 تک ان کی تعداد 18 ہزار ہو چکی ہے جس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ آج پاکستان کے 150 کے قریب نیوز چینلز موجود ہیں۔ان تمام رائے سازی کے اداروں کی ادارتی اور اخلاقی ساکھ کو قائم رکھنے کے لیے جامع پالیسی تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ نیز ان چینلز کو قائم رکھنے کے لیے، کیا پاکستان اپنے نازک معاشی حالات میں اتنا ریوینیو / سرمایہ لگا نے کی اجازت دے سکتا ہے ؟

صحافیوں کے قتل کی مختلف وجوہات درج ذیل ہیں ۔
Reasons of killing journalists

دوسری جانب ایک اور پہلو بھی توجہ طلب ہے ، جس ملک میں خواتین طب، تعلیم اور وکالت جیسے شعبوں میں نمایاں عہدوں پر نظر آتی ہیں— اس کے بر عکس صرف7 فیصد خواتین کا صحافت میں نمائندگی کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ ان اداروں میں قدم جمانا کس قدر کٹھن ہے۔ اسکی بڑی وجہ یہ ہے کے رائے سازی کے اداروں میں عورتوں کے اس شعبے میں ترقی و تحفظ کے لیےکوئی پالیسی موجود نہیں۔الیکٹرونک میڈیا کے عروج کے بعد خواتین کے لیے بہت سی راہیں ہموار ہوئی ہیں مگر معاشرہ اب بھی انکی حیثیت ماننے سے انکاری ہے۔

ان خواتین کو اپنے پیشے سے وابستہ وہ ہی عدم تحفظ، اغوا، تشدد،طرح طرح سے ہراساں کیے جانے کے خطرات کا سامنا ہے جو ایک مرد کو ہیں۔گو کہ ۔۔۔جن معاملات میں (خصوصاً عورتوں سے متعلق ) ، جہاں ایک مرد صحافی کو مشکلات درپیش ہوں وہاں خاتون صحافی مددگار ثابت ہوتی ہیں۔۔۔مگر برقیاتی صحافت میں خواتین صحافیوں کو انکی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کے بجائے ان کو حسن و جمال کےدکھاوے تک محدود کر دیا گیا ہے۔پرنٹ میڈیا کی بنسبت الیکٹرونک میڈیا میں عورتوں کو زیادہ خطرات درپیش ہیں کیونکہ یہاں وہ مکمل طور پرناظرین کے سامنے ظاہر ہوتی ہیں۔

[pullquote]پاکستان میں خواتین کو صحافت میں آگے بڑھنے کے مواقع دینے کا رجحان بہت کم ہے۔
[/pullquote]

مشہور ڈائریکٹر اور صحافی عائشہ غازی کے مطابق” خاندانی نظام سے زیادہ قصور وار وہ مرد ہیں جو عورت کو معاشرے میں باعزت ماحول فراہم نہیں کرتے”۔۔۔ جس کی وجہ سے عورت کے سرپرست بھی ان کو اس شعبے میں بھیجنے سے کتراتے ہیں۔ ان ہی وجوہات کی بنا پرکوئی خاتون کرائم رپوٹر یا تحقیقاتی صحافت کے شعبے میں نظر نہیں آتی۔جبکہ خواتین پر عوام زیادہ بھروسہ کرتے ہوئے، کھل کراپنے مسائل اور خیالات کا اظہار کرتے ہیں ساتھ ہی معاشرے میں عورت کو عزت کی نگاہ سے دیکھے جانے کی بنا پر کئی جگہوں پر مختلف سہولیات بھی مل جاتی ہیں۔ مگر اسی صحافی خاتون کو اکثر بڑی خبروں کی ابتدائی معلومات اپنے مرد ساتھی صحافی کی مدد سے حاصل کرنی پڑتی ہے۔۔۔ اسکی بڑی وجہ مختلف اداروں میں بیٹھے وہ مرد ہیں جو اپنی ساکھ کی وجہ سے خواتین صحافیوں سے گریز کرتے ہیں۔

یہی وہ وجوہات ہیں کہ خواتین ایڈیٹر تو ملتی ہیں مگر نیوز ڈائریکٹر یا اسائنمنٹ ایڈیٹر نہیں نظر آتیں۔بڑے شہروں اور سندھ و پنجاب کے کچھ چھوٹے شہروں کے علاوہ پاکستان میں کہیں خاتون صحافی نہیں ملتیں۔ اس لیے ہمیں عائشہ غازی اور انعام یافتہ عاصمہ شیرازی جیسی مضبوط صحافی خام خام ہی نظر آتی ہیں۔

عالمی انسانی حقوق اور انٹر نیشنل کو ویننٹ آن سول اینڈ پولیٹیکل رائٹس کے مطابق ایک صحافی کو مندرجہ ذیل حقوق حاصل ہوتے ہیں .
کسی بھی معاملے میں ایک خاص رائے رکھنا اورحکومتی یا دوسرے عناصر کے دباؤ کے بغیر اس رائے کا اظہار کرنا۔

ایک صحافی کا حق ہے کہ اس کو زیرِ حراست نہ لیا جائے، جلا وطنی یا کوئی اور سزا نہ دی جائے۔

مختلف طریقے سے تشدد اور غیر انسانی سلوک نہ کیا جائے۔

انھیں اپنے لیے مختلف تنظیمیں اور یونین بنانے کی اجازت ہو۔

بلا خوف و خطر مقامی اور غیر ملکی افراد کو صحیح خبریں پہنچانے کی سہولت۔

لوگوں کی نجی معاملات کو پوشیدہ رکھتے ہوئےاور غیر متعصبانہ رویہ رکھتے ہوئے ۔۔ راست گوئی اور حق بیانی کا حق۔

حقائق حاصل کرنے کے لیے، اعداد و شمار کےمختلف ڈیٹا تک رسائی حاصل ہو۔

انھیں سوال کرنے اور انٹرویو کرنے کی اجازت ہو۔

معاشرتی مسائل کی تحقیقات کرنے اوران کو حل کرنےکے لیے اقدام کرنے کا حق۔ وغیرہ شامل ہیں۔

کسی بھی معاشرے کا یہ حق ہوتا ہے کہ دنیا میں ہونے والے تمام حالات و واقعات مکمل اور سچائی کے ساتھ اس کے سامنے واضح کیے جائیں ۔اس کے لیے ذرائع ابلاغ کا آزادانہ کام کرنا ضروری ہے، کیونکہ آزادی یا تو مکمل ہوتی ہے یا نہیں ہوتی۔۔۔ اس میں بیچ کی کوئی راہ نہیں نکلتی۔

[pullquote]”ہماری آزادی۔۔۔ پریس کی آزادی پر منحصر ہےاور اسےمکمل طور پر کھوئے بنا محدود نہیں کیا جا سکتا "۔
تھامس جیفرسن[/pullquote]

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے