حوا کی بیٹیاں پوچھتی ہیں…..؟؟

دو دن سے طبعیت میں عجیب طرح کی بےقراری ہے کل رات تڑپتے گزری..آنکھیں کئی بار نمدیدہ ہوئیں… رات دھاڑیں مار کے بھی رویا.. آنکھوں کی بدنصیبی پہ غصہ آیا شعور اور آگہی عذاب لگی…اس دور کا انسان ہونے پہ شرمندگی محسوس ہوئی…
آپ پوچھیں کیوں؟

جی اس لیے کہ کل ممتاز دانشور اور انسانی حقوق کے علمبردار میرے محسن ممتاز شاہ صاحب نے فون کیا ایک کیس کے سلسلے میں تھانے جانا ہے آپ بھی آئیں…بھاگتا بھاگتا دفترپہنچا تو اندر پریس کانفرنس جاری تھی میں پریس کانفرنس کو معمول کی پریس کانفرنس سمجھا لیکن یہ میرے لیے انوکھی پریس کانفرنس تھی…میں نے اس سے پہلے ایسی پریس کانفرنس نہیں دیکھی..ایک بوڑھا باپ اپنی جوان بیٹی کے ساتھ پریس کانفرنس کر رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ مجھے انصاف دو میری بیٹی کے ساتھ ظالموں نے ظلم کیا ہے.. بیٹی سے پوچھا کیا ہوا؟
بیٹی نے نقاب سرکایا تو اسکا ناک بھی کٹا ہوا تھا اور سر کا بال بھی کٹے ہوئے تھے..رب کی تخلیق کی یہ بے حرمتی آنکھوں سے دیکھ کر پریشان ہوگیا ..اتنی سفاکیت ؟اتنی جہالت ؟اور وہ بھی میرے شہر میں؟حد ہوگئی پستی کی حدہوگئی جہالت کی….

مجھے افسوس ہوا اپنے قلم پہ کہ اس قلم کا کیا فائدہ ؟جو قلم کسی بچی کے ساتھ زیادتی کے موقع پہ نہ اٹھے..اس زبان کا کیا فائدہ جو اس ظلم کے خلاف آواز نہ بلند کر سکے..ان فقیہوں کے مذہب کا کیا فائدہ جو عورت کے حقوق کی بات نہ کر سکیں…ان دانشوروں کی دانشوری کا کیا فائدہ جو غیرت کے نام یہ جہالت کی بنیں سوچیں نہ بدل سکیں..ان قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کیا فائدہ جو ریاست کی مظلوم اور نہتی لڑکی کی حفاظت نہ کرسکیں..ان وکلاء کا کیا فائدہ جن کے دلائل ظالموں کے لیے وقف ہوں.. ان ججوں کے انصاف کا کیا کرنا جو چند ٹکوں کے عوض بک جائے.. ان حکمرانوں کا حق حکمرانی کیوں دیا جائے جو کسی کے چہرہ کو داغدار کرنے والوں پہ ہاتھ نہ ڈال سکیں…؟
کیوں نہ قلم کار قلم سے ناڑا ڈالنا شروع کر دیں…کیوں نہ فقیہ شہر کی دستار اتاری جائے کیوں نہ عدالت کو بمعہ عملہ سڑکوں پہ گھسیٹا جائے. کیوں نہ وردیاں پھاڑ دی جائیں..کیوں نہ دانشوروں کو الٹا لٹکا دیا جائے…بنت حوا جب سربازار لٹے اور بولنے والا کوئی نہ ہو تو اس معاشرے کو بے حس کیوں نہ کہا جائے…؟

شبے کے الزام میں کسی کا ناک کاٹنا کہاں کا انصاف ہے ؟کس شریعت نے اجازت دی ہے؟

اور معاشرہ کی بے حسی دیکھیں مرد کے ناروا سلوک کے باوجود اسے ہیرو ٹھہرایا جاتا ہے..اس ظالم مرد کو دوسری عورت بھی مل جاتی ہے جبکہ متاثرہ لڑکی سب کی نگاہوں میں گر جاتی ہے…

میں انتہائی ادب کیساتھ اپنے علماء سے پوچھنا چاہوں گا کہ تشدد کے خلاف کیا کرنا چاہیے ؟ تحفظ خواتین بل اسلام کے خلاف ہے معاشرے کے خلاف ہے لیکن آپ اسلامی بل کب لا رہے ہیں؟ان ظالم شوہروں پہ تو کڑا نہیں ڈالنا چاہیے مان لیا…لیکن ان شوہروں کا کیا کرنا چاہیے جو بیوی کو طلاق بھی نہیں دیتے اور تین ماہ قید بھی رکھتے ہیں اور پھر ناک اور بال کاٹ دیتے ہیں..

کیا ایسے لوگوں کو الٹا نہیں لٹکانا چاہیے؟

کیا یہ شوہر کہلوانے کے حقدارہیں؟کیا انکے ساتھ بھی وہی سلوک نہ کیا جائے جو یہ نہتی عورتوں پہ کرتے ہیں…؟جواب دیں.. کل حوا کی بیٹی نے مجھ سے پوچھا تھا ؟حوا کی بیٹیاں کہنے لگی ہیں تم ہمارے مجرم ہو؟تم برابر کے شریک ہو..تم مجرموں کی پشت پناہی کرتے ہو..اس تاثر کو کب زائل کرو گے؟

اور یہ تو معمولی کیس تھا اس سے بڑا کیس جسے آپ نے بھی پڑھا ہوگا کہ ایبٹ آباد میں تین روز قبل ایک غریب اور مزدور باپ کی بیٹی جو نویں کلاس کی طالبہ تھی جنسی زیادتی کے بعد کیری ڈبہ میں باندھ کے زندہ جلا دی گئی..

باپ کراچی کام کرتا ہے مزدور ہے اور ایک مزدور کی بیٹی کے ساتھ یہ سلوک کرنا ہماری تباہی کے لیے کافی ہے…حیران ہوں آسمان کی مضبوطی پہ.. حیران ہوں زمین کے سکون پہ.

تھرتھرانے کا یہ موقع تھا اور یہ آرام سے محوتماشا رہے…ہم سے وہ لوگ لاکھ درجہ اچھے تھے جو بیٹیاں زندہ دفن کرتے تھے..
ہم جنسی آگ بھی بجھاتے ہیں اور پھر جلا کے راکھ کردیتے ہیں…

عورتوں پہ مظالم کب بند ہونگے مجھے نہیں معلوم… میں دیکھ رہا ہوں کہ ظلم حد سے بڑھ چکا ہے اور جب ظلم حد سے بڑھ جائے تو مٹ جاتا ہے..قبل اس کے کہ عورتیں مردوں کا قتل شروع کر دیں… قبل اسکے کہ عورتیں دوپٹے اتار کے ہماری خانقاہوں مسجدوں مندروں حجروں عدالتوں اور سیاستدانوں کے گھروں کے باہر آکے انصاف مانگنے لگ جائیں ہمیں خود پہل کرنی چاہیے.ہمیں انکے حقوق کے لیے آواز بلند کرنی چاہیے…اللہ نہ کرے ایسا وقت آئے…خاکم بدہن خاکم بدہن..لیک میں ایسا دیکھ رہا ہوں کہ اب عورتوں کے ہاتھوں دستاریں گریں گی غیرت کے نام پہ مرد قتل ہونگے عدالتوں اور میڈیا کو جوتے کی نوک پہ رکھا جائے گا یہی عورتیں وردی والوں سے بھی دست و گریبان ہونگی اور پوچھیں گے کہ حساب دو اس خون کا جو بیگناہ بہایا گیا؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے