لیڈر شپ اورمفاداتی ٹولے میں فرق

کہا جاتاہے کہ لیڈرشپ ایک خداداد صلاحیت ہے۔ قدرت کسی ایک فرد کو یہ صلاحیت دیکر اس قابل بناتی ہے کہ وہ اپنے جیسے ہزاروں لاکھوں افراد کی قیادت کرتا ہوا انھیں کسی اچھائی یا برائی کے راستے پر گامزن ہونے پر آمادہ کرتاہے ۔لیڈر شپ کی خصوصیت چند مخصوص لوگوں میں پائی جاتی ہے باقی ماندہ افراد کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں بچتا کہ وہ اس کے پیچھے ناں چلیں اس کے کہے پر سر تسلیم خم کریں اور انھیں یقین ہو کہ ہمارا لیڈر ہی ہمیں مشکل اور پرپیچ راستوں سے نکال کر منزل کی طرف لے جائے گا ۔لیڈر ایساہوتاہے جو ملک میں امن کی فضاء قائم کرسکے ۔ ایک سچا اور ایماندار لیڈر اپنے لوگوں کے درمیان اور ان کیلئے زندہ رہتاہے ۔

ہمارے ملک میں بھی گونا گوں لیڈر موجود ہیں۔ ان میں بہت سے لیڈر ایسے ہیں جو صرف نام کے ہیں ۔ کہا جاتاہے کہ لیڈر تین قسم کے ہوتے ہیں کچھ لیڈر پیدائشی ہوتے ہیں کچھ محنت کرکے عظمت حاصل کرتے ہیں اور کچھ لوگوں پر عظمت زبردستی تھونپی جاتی ہے۔ ماشاء اللہ ہمارے لیڈر ایسے ہیں جو امریت کی گود میں پلے ہوں۔ ہمارے ہاں جمہوریت امریت کی گود میں پلتی ہے اور امریت انسانی کھالوں کے خیموں میں رہنے کی عادی ہے۔ وہ لیڈر جو آمریت کی گود میں پلے ہوں ان سے یہ تقوی رکھنا کہ وہ جمہو ر کی فلاح کیلئے کام کریں گے احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ ایسے تمام لیڈر جنہیں اپنے اختیارات سے استحکام حاصل کرنے والے حکمران کہنا زیادہ مناسب ہوگا عوام الناس سے ایک مخصوص فاصلے پر رہتے ہیں۔ یہ اپنے آپ کو قانونی عمل سے بالکل علیحدہ رکھتے ہیں اور اپنے آپ کو کسی اور سیارے کی مخلوق سمجھتے ہو ہوئے یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ پاک دامن ایسے ہیں کہ دامن نچوڑیں تو فرشتے وضو کریں۔ ہمارے نام نہاد لیڈر حقیقت میں افلاطون کے دیئے ہوئے اس سبق پر چل رہے ہیں کہ بادشاہ غلطی نہیں کرتا۔ ایسے لیڈروں کو عوام کے مسائل کا ادراک کیسے ہوسکتاہے یقیناً نہیں ہوسکتا۔ انکے پاس صرف پرکشش نعرے ہی ہوتے ہیں اوردعوی کرتے ہیں کہ وہ عوام کے خیرخواہ ہیں۔

بدقسمتی سے ہم ایک ایسے دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں مفاد پرست ٹولے نے پاکستانی قوم کو یرغمال بنالیا ہے۔ اس مفاد پرست ٹولے نے قیادت کے معنی و مفاہیم ہی بدل دیئے ہیں۔ لیڈر جیلیں بھی کاٹتے ہیں اور جلاوطن بھی ہوتے ہیں۔ جلاوطن سے مراد یہ ہے کہ جسے زبردستی ملک سے باہر بھیجا جائے جس طرح شریف فیملی راضی بہ رضا گئی تھی اسکوجلاوطنی نہیں کہا جاتا ۔لیڈر جب جلاوطن یا جیلوں میں جاتے ہیں تو وہ ماضی سے سبق حاصل کرتے ہیں۔ سوچ و بچارکرتے ہیں کتابیں لکھتے ہیں کہ اگر قدرت نے ہمیں دوبارہ موقع دیا تو ہم قوم کی رہنمائی کس طرح کریں گے۔ جلاوطنی اور جیلوں کی سختیوں سے بھی انکے پایہ استقلال میں لغزش نہیں آتی ہندوستان کے سابق وزیراعظم جواہرلعل نہرو نے اپنی زندگی کے نوسنہرے سال برطانوی قید خانوں میں گزارے لیکن اس دوران اپنی راہ سے پیچھے نہیں ہٹے۔ نہرو خاندان کے ہر فرد نے جیل بھگتی۔موتی لعل کی بیوی سواروپ رانی سے لیکر نن کی اٹھارہ سالہ بیٹی چند ریکھا تک ۔جواہرلعل نے 45سال کی عمرمیں اپنی سوانح عمری لکھی انھوں نے کہا کہ میری جدوجہد تاریخ کی بجائے میری ذہنی نشوونما کا احاطہ کریگی1936ء میں جب وہ کتاب شائع ہوئی تو اسے عصر حاضری کے عظیم ترین ذہنوں میں سے ایک کے متعلق قیمتی دستاویز قرار دیا گیا۔نہرو کی تین بہترین کتابیں جیل میں گزرنے والے دنوں کا عطیہ ہیں اس نے جیل کو دنیا کا سب سے منفرد سکول قراردیا۔

ذولفقارعلی بھٹو شہید نے پھانسی کے پھندے کو چوم لیا اورتاریخ کے ہاتھوں مرنے سے بچ گیا مگر میاں نوازشریف نے جیل میں گزرے ماضی سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا خود ساختہ جلاوطنی زندگی میں کوئی کتاب تو نہیں لکھی مگر دو کام ضرور کیئے اول شنشاہیت کا قریب سے مشاہدہ کیا ثانیناً بقول حسن نثار دونوں بھائیوں نے سر کے بال لگوائے وہ بھی بڑے بھائی نے کالے اور چھوٹے بھائی نے سفید ۔ کرپشن کے سنگین الزامات لگے پانامہ لیکس میں انکے خاندان کی آف شور کمپنیوں کے تذکرے ہوئے اپوزیشن نے حساب مانگا تو آگے سے جواب ملا ہم لوہے کے چنے ہیں جو چپائے گا دانت ٹوٹ جائیں گے ۔ ہندوستان کے مشہور الم نگار محمد عرفان لکھے ہیں کہ1965ء میں لال بہادر شاستری ہندوستان کاوزیراعظم ہوتاہے وہ پنجاب نیشنل بنک سے5000روپے کار کی خریداری کیلئے قرض لیتا ہے ۔ وہی لال بہادر شاستری جب 1965ء کی جنگ میں کہا کہ ہم اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے تو جواب میں جنرل ایوب نے طنز کی کہ یہ چھوٹو کیا کریگا۔ یارہے کہ لال بہادرشاستری درمیانے قد کا مالک تھا 1966ء میں تاشقند میں فوت ہو جاتے ہیں تو بینک اس کی بیوہ للیتا شاستری کو خط لکھتا ہے کہ5000 روپے بنک کا قرضہ آپ کے ذمہ ہے وہ آپ کو اداکرنا ہوگا اس کی بیوہ نے اگے سے’’ تڑی ‘‘نہیں لگائی بلکہ وعدہ کیا کہ فیملی پنشن سے رقم قسطوں میں ادا کی جائیگی اور انھوں نے بہرصورت رقم ادا کی ہمارے ہاں ملک ہضم کرنے کے بعد ڈکار بھی نہیں لیتے کہ کسی دوسرے کو خبر نہ ہوجائے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے