رنگ ، قرآن اور سائنس

ہمارے اطراف موجود ہر شئے اپنے رنگ سے ہی جداگانہ نظر آتی ہے۔
اگر ہر چیز ایک رنگ کی ہوتی تو کیا ہوتا؟
آئیں اور سمجھیں کہ اللہ نے کیسانظام تخلیق کیا ہے۔ یہ اللہ کی خلّاقی کے مظاہرے ہیں جن پر ہم کم توجّہ دیتے ہیں۔

قرآن : (سورۃ۳۵، آیت۲۷۔۲۸)
"کیا تم دیکھتے نہیں ہوکہ اللہ آسمان سے پانی برساتاہے پھر اس کے ذریعے سے
ہم طرح طرح کے پھل نکالتے ہیں جن کے رنگ مختلف ہوتے ہیں۔
اسی طرح انسانوں، جانوروں اور مویشیوں کے رنگ بھی مختلف ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اس سے ڈرتے ہیں۔
بے شک اللہ زبردست اور درگزر فرمانے ولاہے۔”

قرآن بظاہر نہایت سادہ لیکن در حقیقت انتہائی پیچیدہ وقوعہ Complex-Phenomenon کی طرف توجّہ دلاتا ہے ، وہ یہ کہ کائنات کی ہر چیز ایک رنگ رکھتی ہے ۔ رنگ زمین اور کائنات کو خوبصورت بناتے ہیں۔ پھول ، پھل، درخت، مویشی ، فصلیں، سبزیاں، پہاڑ، دریا، سمندر ، انسان، آسمان و بادل اور انسان کی تخلیق وغیرہ سب مختلف رنگ رکھتے ہیں۔ انسان اس پر دھیان نہیں دیتا لیکن قرآن اس طرف انسان کو توجّہ دلارہاہے کہ انسان اس پر غور کرے ۔

رنگ سے آگہی انسانی اعصاب کی ایک صلاحیّت ہے۔ دنیا میں لامحدود رنگ ہیں مگر انسان رنگوں کے ایک کروڑ شیڈ پہچان سکتا ہے۔ جدید تحقیقات سے یہ آشکارا ہوا کہ درحقیقت ہر چیز اصلاً بے رنگ ہے کیونکہ ایٹم بے رنگ ہے مگر ان کا رنگین نظر آنا روشنی کا کرشمہ ہے ۔ یہ بھی دلچسپ حقیقت ہے کہ روشنی خود بھی نظر نہیں آتی حالانکہ وہ سات رنگ اپنے اندر چھپائے رکھتی ہے۔ مگریہی روشنی جس چیزپر پڑتی ہے اس کو دِکھلاتی ہے۔ یہ کیسا طلسم ہے؟

سائنسی دریافتوں سے ظاہر ہوا کہ ہر چیز میں اپنی ایٹمی ساخت کے حوالے سے ایسی خصوصیت پیدا ہوتی ہے کہ وہ روشنی کے ساتوں رنگ مختلف نسبتوں سے جذب کرتی ہے اور کچھ کو منعکس کرتی ہے ۔ رنگوں کی کیٹِگری کا تعلق روشنی اورکسی چیز کے اُن طبعئی خواص سے ہوتا ہے جو کہ روشنی کے جذب کرنے اور انعکاس کرنے سے تعلّق رکھتے ہیں۔ رنگ کا شعور روشنی کے اسپکٹرم Spectrum اور انسانی آنکھ میں موجود روشنی کے ریسپڑ Receptorsکے درمیان ملاپ کا نتیجہ ہوتا ہے۔ کسی بھی چیز سے پلٹ کر آنے والی روشنی کی لہریں ایک خاص رنگ لیکر آتی ہیں اور ہماری آنکھ اور بصری اعصاب کے نظام کے ذریعے دماغ تک جاکراس چیزکا وہی رنگ دکھاتی ہیں!

اپنے ملاحظہ کیا کہ بظاہر سادہ سا رنگ اپنے اندر کیسا زبردست نظام لیئے ہوئے ہے جس کا تعلق بے رنگ لہر یعنی روشنی ، کسی ایٹم کے جذب اور انعکاس کی مخصو ص صلاحیّت اور انسانی اعصاب سے ہے۔

پھولوں کا درحقیقت کوئی رنگ نہیں لیکن ہمیں رنگ برنگ اس لیے نظر آتے ہیں کہ وہ باقی تمام رنگ جذب کرکے صرف اپنا رنگ لوٹاتے ہیں۔ ہمارے اطراف فطرت اور مظاہر قدرت جو رنگ لیئے ہوئے ہیں انکے پیچھے ہر دم رواں یہ نظام ہے جو انتہائی پیچیدہ، باریک بیں اور اعلیٰ ترین معیار کا ہے۔ یہ روشنی کے بغیر معدوم ہے۔ اربوں انسانوں میںیکساں اعصابی نظام اور باہر موجود اشیاء میں موجود کھرب ہا کھرب ہا کھرب۔۔۔ہا کھرب ایٹموں میں موجود نظم کو سمجھ میں احاطہ کرنا ہی مشکل ہے۔ ہرانسان نیلے کو نیلا ہی دیکھتا ہے اور سبز کو سبز ورنہ ہم اسے رنگ کا اندھا Colour Blind کہتے ہیں۔

قرآن کا رنگوں کی طرف اشار ہ انسان کے لیئے بہت معنی خیز ہے۔ اس آیت میں علم کا تذکرہ انسان کے لیے جستجو کی ترغیب وتحریک ہے۔
اب یہاں پر منکرینِ خدااور مادہ پرستوں سے سوال ہے کہ :
۱۔ ایٹموں کے کسی جتّھے یا گروپ کو روشنی کے مخصوص رنگ جذب کر نا اور لوٹانا کون سکھاتا ہے۔
۲۔ اور وہ کیا ہے جس کی وجہ سے ایٹم کا کوئی مجموعہ اپنے لیے کوئی رنگ پسند کرتا ہے۔
۳۔ یہ خصوصیت آفاقی کیوں ہے، کیوں ہر انسان سرخ کو سرخ دیکھتا ہے؟
۴۔ انسان کے اندرکے بصری نظام اور بیرونی نظام میں یہ آفاقی رابطہ اتنا منظّم کیسے؟
سائنس مہر بہ لب ہے کیونکہ یہ نہایت پیچیدہ ، اعلیٰ تر،برتر میٹا سائنس ہے ۔یہی خدا کی خلاّقی ہے ۔
دوسری طرف انسان فطری تجسّس اور عقل سے کائنات میں ہر پیچیدگی کاکھوج لگاتا ہے اور بے مثال میٹا سائنس Meta-Scienceکی تشریح کرتا ہے۔
یہی علوم انسان کی سائنس ہے اور یہی علوم خدا کی طرف لیکر جاتے ہیں۔
گویاغور و فکر ہی اللہ کا عرفان عطا کرتا ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے