خون مسلم اتنا ارزاں کیوں؟

گزشتہ ایک ہفتہ سے سوشل میڈیا پر شام کے بے بس ، معصوم اور نہتے عوام کی خون میں لت پت تصاویر پوسٹ کی جا رہی ہیں۔چونکہ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا پر بشارالاسد کے مظالم کو بالکل نہیں دکھایا جا رہا اس لیے اہل درد سوشل میڈیا پر کسی حد تک شامی عوام پر بشارالاسد کے مظالم کا پردہ چاک کر رہے ہیں۔ یوں تو سوشل میڈیا پر اسدی فوج کے مظالم کی سینکڑوں تصاویر موجود ہیں لیکن مجھے ایک معصوم بچے کی تصویر نے خون کے آنسو رونے پر مجبور کیا۔ایک تباہ شدہ عمارت کے ملبے تلے ایک معصوم بچہ آ کر شہید ہو چکا ہے‘ اس کا سارا جسم عمارت کے ٹنوں وزن کے نیچے ہے لیکن سر ملبے سے باہر ہے۔ پھول جیسا سرخ و گلاب چہرہ ابدی نیند سو چکا ہے اور زندہ رہنے والوں سے پوچھ رہا ہے کہ مجھے کس جرم کی سزا دی گئی ہے؟
شام میں ایک طویل عرصے سے آگ اور خون کا بھیانک کھیل جاری ہے، عالمی برادری ، انسانی حقوق کی نام نہاد تنظیمیں ، اقوام متحدہ اور عالم اسلام کی نمائندہ تنظیمیں اسدی فوج کے مظالم کے سامنے بے بس ہیں۔ شاید مرنے والے مسلمان ہیں اس لیے کوئی آواز نہیں اُٹھاتا۔ نائن الیون،فرانس سانحہ اور اس کے بعد جتنے دہشت گردی کے واقعات غیر مسلموں کے خلاف ہوئے اس کا سدِباب عالمی سطح پر کیا گیا۔ یہ آن دی ریکارڈ باتیں ہیں ، یہاں پورے پورے واقعات کو بیان کرنا مقصود نہیں، نہ ہی یہ سطور اس کی اجازت دیتی ہیں، لیکن اگر مرنے والوں کا تعلق اسلام سے ہے تو چاہے وہ کشمیر کے مسلمان ہوں‘ برما کے مظلوم ‘ افغانستان کے مسلمان‘ فلسطین کے یارومددگار ، شام کے بے بس مسلمان۔ ان پر مظالم کے خلاف امریکہ آواز اُٹھاتا ہے ، نہ ہی انسانی حقوق کی تنظیمیں اور اقوام متحدہ۔ آخر کیوں؟

بات آگے بڑھانے سے پہلے بشارالاسد کا ماضی جاننا بہت ضروری ہے تاکہ اس مسئلے کو سمجھنا آسان ہو۔ فرانسیسی سامراج نے اپنے 25-30سالہ دور حکومت میں نصیری اقلیت کو علوی کا نام دے کر انہیں فوج، پولیس اور انتظامیہ میں بھرتی کیا۔ مائیکل عفلق عیسائی نے بعث پارٹی (حزب البعث) قائم کی تو نصیری اس میں پیش پیش رہے۔ حزب البعث نے شام اور عراق میں پنجے گاڑ کر مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کرکے ان دونوں ملکوں میں 1963ء میں فوجی انقلاب برپا کر کے اقتدار حاصل کر لیا۔ چنانچہ 1970ء میں علوی وزیر دفاع حافظ الاسد نے بعثی صدر نورالدین اور وزیر اعظم یوسف زین کا تختہ الٹ کر خود اقتدار سنبھال لیا۔ حافظ الاسد کے 30سالہ دور میں جبر و ظلم کارفرما رہا۔ ایران عراق جنگ 1980ء میں اس نے نصیری شیعہ ہونے کی بنا پر ایران کا ساتھ دیا۔ فروری 1982ء میں شام کے حما کے مسلمان، نصیری مظالم کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے تو حافظ الاسد کی فوج نے وہاں ٹینکوں سے گولہ باری کی اور خون کی ندیاں بہا دیں حتیٰ کہ جامع مسجد حما شہداء کے خون سے رنگیں ہو گئی۔ شہدائے حما کی تعداد کا اندازہ 20سے 45ہزار ہے۔

حافظ الاسد کا بھائی رفعت الاسد انٹیلی جنس کا سربراہ تھا جو اہل سنت مسلمانوں پر ظلم ڈھانے میں بے باک تھا۔ آخر حافظ الاسد جون 2000ء میں مر گیا تو اس کے بیٹے بشارالاسد نے پیرس سے آ کر حکومت سنبھالی۔ بیٹا بھی باپ کے نقش قدم پر چل نکلا۔ فروری 2011ء میں مصر میں کامیاب انقلاب برپا ہوا اور حسنی مبارک کا تختہ اقتدار الٹ گیا اور اس سے ایک ماہ پہلے تیونس کا جلادزین العابدین بن علی رخصت ہوا تو مارچ میں شام کے عوام بھی بشارالاسد کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے۔ نصیری حکومت نے پرامن احتجاج کرنے والے مظاہرین پر ٹینک چڑھا دیے۔ تحریک آزادی کا آغاز درعا سے ہوا جہاں سکول کے بچوں نے سکول کی دیوار پر حکومت کے خلاف نعرے لکھ دیے تھے۔ بچوں کو گرفتار کرکے جیل میں ان کے ناخن اُکھاڑ دیے گئے‘ انہیں جلتے سگریٹوں سے داغا گیا‘ ابلتا ہوا پانی حلق میں ڈالا گیا‘ جسموں میں کیل ٹھونکے گئے، زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے درجنوں طالب علم موت کی وادی میں ہمیشہ کے لیے جا سوئے۔
ایک عرصہ سے بشارالاسد کے سرکاری اہلکار اہل شام کے خلاف تعذیب و تشدد کے تمام ہتھیار استعمال کر رہے ہیں جن میں خواتین کی آبروریزی، بچوں کا قتل، ہاتھ پاؤں کاٹنا، زندہ جلا دینا‘ سب کے سامنے زندہ دفن کر دینا‘ آنکھیں نکال دینا یا آری سے کان کاٹ دینا ایسی ہولناک کارروائیاں ہیں جن کے متعلق دنیا والوں نے نہیں سنا ہوگا۔ بشارالاسد کے اس گھناؤنے کھیل میں روس، ایران، عراق اور لبنان (حزب اللہ) بھی بشارالاسد کا ساتھ دے رہے ہیں۔

عالمی دنیا بالخصوص امریکہ اور برطانیہ ایک طرف جمہوریت کی بات کرتے ہیں، جمہوری سسٹم کو سپورٹ کرتے ہیں اور آمریت کی کھلے لفظوں مخالفت کرتے ہیں تو دوسری طرف شام میں آمر کے آمر بیٹے نے تین دہائیوں سے اہل شام کو یرغمال بنایا ہوا ہے، شام میں تقریباً 74فیصد اہل سنت ہیں لیکن ان پر 13فیصد علوی طاقت کے بل بوتے پر مسلط ہیں، کیا یہ عالمی دنیا کو نظر نہیں آتا؟ عالم دنیا نے اگر اب بھی بشارالاسد کے مظالم کے خلاف آواز نہ اٹھائی تو پھر انہی اہل شام میں سے کچھ لوگ اپنے دفاع میں اٹھیں گے جو بشارالاسد کو اس کی زبان میں جواب دیں گے پھر جنہیں دنیا دہشت گرد کہے گی،تب عالمی دنیا اپنے حریفوں کے ساتھ جدید اسلحہ سے لیس ہو کراپنے دفاع میں اٹھنے والے ان دہشتگردوں پر چڑھ دوڑے گی اورانہیں نشانہ عبرت بنا دے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے