صحافت کی آزادی کیلئے پہلا حقیقی قدم

پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں حکومتی رکن شیخ علاﺅالدین کی ایک بات قانون و پارلیمانی امور کے وزیر رانا ثناءاللہ خان نے بھی دہرائی ہے کہ پنجاب اسمبلی کی کارروائی کو اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا میں سپیس نہیں ملتی ۔۔۔ میڈیا بریفنگ کے دوران رانا ثنا اللہ نے خالصتاً پنجابی اور خاص طور پر فیصل آبادی انداز میں شہادت کی انگلی اور انگوٹھا ملا کر سپیس کی نشاندہی بھی کردی کہ چلیں اہم پارلیمانی امور پر اتنی سپیس ہی دیدی جائے ۔۔۔۔۔ان کا یہ گلہ اور تجویز نامناسب بھی نہیں ہے ۔۔۔

پنجاب اسمبلی ملک کی سب سے بڑی صوبائی اسمبلی ہے اور صوبے کا سب سے بڑا جمہوری اور آئینی ادارہ ہے ۔۔۔ یہاں کی کارروائی رپورٹ ہونا چاہئے ۔۔۔ اس میں بھی دورائے نہیں کہ حکومت یا کوئی شخص کسی اشاعتی اور نشریاتی ادارے کو کوریج کیلئے مجبور نہیں کرسکتا لیکن یہ امر اپنی جگہ درست ہے اور اسے تسلیم بھی کرنا پڑے گا کہ آخر پنجاب اسمبلی کے سنجیدہ امور کو سپیس کیوں نہیں ملتی ۔۔۔۔؟( اشاعتی و نشرایاتی ادارے تو عوام کیلئے ہوتے ہیں ) سپیس نہ ملنے کی ایک وجہ تو خود پارلیمانی ’کارکردگی ‘اور اس کی جملہ ’سچائیاں‘ ہیں دوسری وجہ میڈیا کی پالیسی اور تیسری وجہ خاصی قابلِ اعتراض ۔۔۔۔ یعنی ہم صحافیوں کی پروفیشنل سکل۔۔۔ اور اس سے بھی بڑھ کر میڈیا کارکنوں کی وہ مجبوریاں ہیں جو انہیں ٹیلی فونک ہدایات کی صورت میں نان پروفیشنل نااہل” افسروں “ اور مالکان کی طرف سے ملتی ہیں ۔۔۔۔۔

رانا ثناءاللہ کا شکوہ اپنی جگہ۔۔۔ جب ان سے استفسار کیا گیا کہ محکمہ محنت اور اشتہارات کا منبع محکمہ اطلاعات صوبائی دائرہ کار میں ہیں تو اشتہارات کو ویج ایوارڈ اور کارکنوں کی بروقت اجرت کی ادائیگی سے مشروط کیوں نہیں بنایا جاتا جبکہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے ؟ رانا ثنااللہ کیلئے یہ سوال نیا نہیں تھا۔۔۔ انہوں نے جواب بھی نیا نہیں دیا ۔۔۔ بولے اسمبلی کا اجلاس کم و بیش ڈیڑھ ماہ جاری رہنا ہے ، ہم مل بیٹھ کر اس پر بات کرلیں گے، ویسے تو آپ جانتے ہی ہیں کہ ویج ایوارڈ کا معاملہ کیا ہے اور ہماری( حکومتی ) مجبوریاں کیا ہیں ؟ آپ کارکن خود بھی کوئی ”ہل جُل‘ ‘ کریں ، کوئی تحریک ، پروٹیسٹ، کوئی موومنٹ بنائیں ، ہمارے لئے تو مالکان کو کونٹر کرنا آپ کو معلوم ہی ہے کہ کتنا مشکل ہے ۔۔۔۔ ۔ ان کی یہ بات درست ہے ۔۔ یہ جواب وہ پہلے بھی دے چکے ہیں ۔۔۔تب ان کا کہنا ہوتا تھا کہ میاں صاحب( نوازشریف و شہبازشریف) سے ہم بات تو کرسکتے ہیں لیکن نظامی صاحب ( مدیرِ نوائے وقت مجید نظامی مرحوم) آڑے آجاتے ہیں ، ان کے ان کی ناں کے سامنے کسی کی ہاں نہیں ہوسکتی ۔۔۔۔

یہاں یہ واضح کرنے اور تسلیم کرنے میں بھی کوئی عار نہیں کہ پیپلز پارٹی کے دور میں اطلاعات کے وزیر قمر کائرہ نے کوشش بھی کی تھی مگر اس وقت کی پی قایف یو جے کی اسلام آباد بیسڈ قیادت نے مالکان وفائی کی اور کارکنوں کا بھٹہ بٹھا دیا۔۔۔

رانا ثناءاللہ نے پھر بھی کلی طور پر مایوس نہیں کیا ۔۔۔ ان کا کہنا ہے کہ آپ ہمارے ساتھ بیٹھ جائیں ۔۔۔ کوئی حل نکال لیتے ہیں ، وہ تسلیم کرتے ہیں کہ اخبارات کو اشتہارات کسی میرٹ پر نہیں بلکہ لین دین ، دوستی ناطے ، تعلقداری ، سیاسی رشوت اور اثرورسوخ کی بنیاد پر جاری کیے جاتے ہیں حالانکہ اس وقت تمام اخبارات اپنی سرکولیشن کے دعوﺅں ( اے بی سی سرٹیفکیٹ )کے حوالے سے براہِ راست نیب کی گرفت میںآسکتے ہیں ۔۔ اگر ان کے اشتہارات کارکنوں کی قانونی اجرت اور مراعات کی بروقت ادائیگی کے ساتھ مشروط کردیے جائیں تو بہت سے اخبارات کے پاس بہت سی سپیس خالی رہ جائے گی ۔۔۔۔۔۔

رانا ثنااللہ سے بس ایک گذارش کی گئی ہے کہ وہ ٹیبل پر بیٹھنے سے پہلے اشاعتی و نشریاتی اداروں میں کام کرنیوالے کارکنوں ، کارکنوں کے نام پر مراعات لینے والے’ آف شور “ افراد اور حال ہی میں چھانٹیوں کا شکار بننے والوں کی رپورٹ منگوالیں ۔۔۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ محکمہ محنت اور محکمہ اطلاعات ان سے پوری طرح تعاون نہیں کریں گے۔۔۔ اس لئے انہیں ایک کونٹر لسٹ ہم بھی بنا کر دیں گے ۔۔۔اتفاق سے یہ’ غیر حکومتی ‘بات انہیں نامناسب نہیں لگی ۔۔۔۔۔

دیکھئے ۔ کس کی لسٹ کب بنتی ہے ؟ کب وزیرقانون مل بیٹھتے ہیں اور میڈیا کارکنوں کا ساتھ دینے کارسک لیتے ہیں ۔۔۔ حالانکہ۔۔۔ وہ جانتے ہیں کہ جس روز حکومت کارکنوں کے ساتھ کھڑی ہوگئی میڈیامالکان آسمان سے زمیں پر آگریں گے ۔۔۔۔ پھر حکومت کو مالکان کی بلیک میلنگ سے نجات اور کارکنوں کی سپورٹ بھی مل جائے گی جبکہ یہ صحافت کی آزادی کیلئے پہلا حقیقی قدم ہوگا۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے