زیرحراست ہلاکتوں کی وجہ سے اداروں پر اعتماد کا سوال ؟

رینجرز کی تحویل میں ایم کیو ایم کے کارکن کی ہلاکت نے رینجرز کے اُُس مثبت تاثر کو نقصان پہنچایا جو کراچی میں امن قائم کرنے پر عوام میں بیٹھ چکاُتھا۔کراچی کا امن قائم کرنے کے لئیے چھبیس سال سے رینجرز کراچی میں تعینات ہے پہلے رینجرز کے پاس پولیس کے اختیارات تھے مگر کراچی آپریشن کے بعد انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت نویں روزہ ریمانڈ کے اختیارات بھی مل گئے مگر اس سے تجاوز ہمیں دو بار نظر آیا ایک جب یاسر شاہ کو پبلک پلیس پر فائرنگ سے ہلاک کر کے اگرچہ اُس اہلکار کو سزا بھی ہوگئی مگر پھر ایک بار آفتاب احمد کے تشدد زدہ لاش دیکھ کر ریاستی اداروں کی ملزموں کے ساتھ بربریت نے اسکی ساکھ کو شدید دھچکاُلگایا ہے ملزم کو ریمانڈ میں لینے کاُمقصد اُس سے ابتدائی معلومات لیناُ مقصود ہوتا ہے انٹیروگیشن کی جاتی ہے جب نویں روز کا ریمانڈ تھا تو پھر کیوں ابتدا میں ہی دانت توڑنے،ناخن نکالنے،ڈرل کرنے کی کرنٹ لگانے کی ضرورت پیش آئی جبکہ ابھی صرف الزام تھا۔

ہمارے تھانوں اور تفتیشی اداروں میں یہ رواج بن چکا ہے کہ تشدد اور بربریت سے تفتیش کی جاتی ہے اگر زیر حراست کوئی ہلاکت ہوُبھی جاتی ہے تو ہمارے ہاں کوئی ایسا قانون بھی موجود نہیں۔جبکہ دنیا بھر میں کسٹوڈیل ڈیتھ پر سخت سزائیں ہیں۔اگرچہ پاکستان اقوام متحدہ کے انیس سو چورانوے کا "کنوینشن اگینسٹ ٹیرارزم ” کا ممبر بھی ہے جس میں آرٹیکل انتیس زیر حراست تشدد کو روکنے کے حوالے سے ہے مگر پاکستان نے اسکو ریٹفائی نہیں کیا۔دو ہزار چودہ میں پارلیمینٹرین فائزہ حمید نے کسٹوڈیل ڈیتھ کے حوالے سے ایک ریکوزیشن دی تھی جسے سینیٹ نے تو پاس کر دیا تھا مگر نیشنل اسمبلی نے پاس نہیں کیا۔

پاکستان زیر حراست ہلاکت پر پاکستان پینل کورٹ میں اس حوالے سے جو قانون ہے وہ پرانا ہے جس کے تحت جس ریاستی ادارے پر ہلاکت کا الزام ہے وہی ادارہ تحقیق اور پروسیکیوشن بھی کرے گا مگر کیا اس سے انصاف کے تقاضے پورے ہونگے پاکستاںُمیں دو ہزار نو تک کسٹوڈیل ڈیتھ کی فگر چوون ہے، اسکے بعد بھی زیر حراست کئی ہلاکتیں ہوئی ہیں مگر اسے آپ ڈیٹ نہیں کیا گیا۔

ڈی جی رینجرز بلال جو آجکل ٹی وی پر ترجمان بنے ہوئے ہیں گذشتہ دنوں کراچی میں سات پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ گلنگ پر ٹی وی پر آکر اپنی کامیابیاں گنو رہے تھے اور میڈیا پر تنقید بھی کر رہےتھے کہُ انکے اچھے کاموں کی بھی کوریج ہونی چاہئیے تو اج وہ کہاں ہیں جناب صرف ملوث اہلکاروں کی برطرفی مسلئے کا حل نہیں ہے اپنے اداروں میں اصلاحات لائیں اور اس طرح کی بربریت سے اجتناب برتے ورنہ عوام جو اعتماد آپُ پر کر رہی ہے وہ ٹوٹتے دیر نہیں لگے گا۔

آرمی چیف نے تحقیقات کا حکم دے دیا جو دو سال میں اپنی نوعیت کا الگ اقدام ہے مگر یہ بھی نہ بھولے کہ رینجرز فوج کے اندر کا ہی ایک ادارہ ہے۔عوام جو کہ آرمی چیف سے بہت امید لگا بیٹھے ہیں اس قسم کے اقدام سے صرف ریاستی اداروںُ کی ساکھ ہی متاثر ہوگی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے