ما بعد جدیدیت، ایک دھوکہ

کتنے ہی پتے ایسے ہیں جنکو چُھپا کر رکھا جاتا ہے، اور وقت آنے پر یہ پتے سامنے لائے جاتے ہیں. حقیقی سچائی اور موضوعی و معروضی علم کی حقیقت تک رسائی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں. لاحاصل بحثیں اور بے بنیاد مسائل میں الجھایا جاتا ہے. جھوٹ اور جھوٹے اجسام کو نت نئے لبادوں میں اوڑھ کر منظر عام پر لایا جاتا ہے، تاکہ سچ اور سچائی کے علمبردار تھک جائیں، جُھک جائیں یا پھر دب جائیں. جب رائج اصلاحات کی اصلیت سامنے آجاتی ہے تو نت نئی اصلاحات پیش کی جاتی ہیں. مگر پسِ جواز وہی جھوٹ کی ترویج اور حقائق کی پردہ پوشی ہوتی ہے.

ما بعد جدیدیت بھی ایسا ہی لُچ ہے. آخری تجزیے میں "نظریات اور فارمولائی بحث کا رد ہی ما بعد جدیدیت کہلاتی ہے”. پُرلطف امر تو یہ ہے کہ ما بعد جدیدیت کے علمبردار ہی ما بعد جدیدیت کی کوئی مربوط تعریف پیش کرنے سے قاصر ہیں یا پھر تردد کا شکار ہیں. ما بعد جدیدیت کے مطابق کوئی نظریہ سچ نہیں. ما بعد جدیدیت کے تحت کوئی بھی نظریات سے اپنی وابستگی ظاہر نہیں کر سکتا. نظریات، خیالات اور تاثرات کی مرکزی تنظیم کا رد ہی ما بعد جدیدیت ہے. یعنی کلیت پسندی کی بنیاد پر قائم کوئی بھی خیال یا فِکر، ما بعد جدیدیت کے ضمن میں ایک خام امر ہے. ما بعد جدیدیت کے مطابق نظریات کی کوکھ سے جبریت جنم لیتی ہے.

انفرادیت ہی ما بعد جدیدیت کی اساس ہے. آذادانہ نقطہ بازی اور انفرادی نظریات کے موقف کا قیام ہی ما بعد جدیدیت کا مقصد ہے. ما بعد جدیدیت سِرے سے ہی نظریہ دینے کی مخالف ہے. دراصل ما بعد جدیدیت تاریخی ارتقاء کے فلسفے کو رد کرنے کیلئے میدان میں اترتی ہے. ما بعد جدیدیت کے مطابق استحصال طبقاتی نوعیت کا نہیں ہوتا بلکہ جبر اور استبداد معاشرے کے جزوِ لازم ہے.

مابعد جدیدیت میں عالمگیر عمل اور عالمگیر علم کی بجائے بےمحابا اور علاقائی بیانیہ زیادہ اہمیت کا حامل ہے. کلیت پسندی، ضابطہ بندی اور فارمولا سازی کی یکسر نفی ہی ما بعد جدیدیت ہے. یعنی ما بعد جدیدیت کے مطابق نظریات کے معاملے میں عالمگیریت، کلیت، مرکزیت، ضابطگی اور فارمولا سازی اصل میں جبریت کا سبب بنتی ہے. ما بعد جدیدیت کے خیال میں یہ امور آخر میں ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں.

ما بعد جدیدیت ایک دھوکہ ہے. اِس دھوکے کا مقصد انسانیت کو عالمگیر سماج اور عالمگیر علم کی بجائے انفرادیت کی جیل میں قید کر دیا جائے. انسانیت کی کُلی جدوجہد کے آگے بند باندھ دیا جائے تاکہ انسانی آبادی اپنے مسائل کو کمزور انفرادی کوششوں سے حل کرتی رہے. اور اِس طرح طاقت کے مراکز اپنا جبر آسانی سے قائم رکھ سکیں.

ما بعد جدیدیت ایک مضحکہ خیز فلسفہ ہے. جیکوئس ڈریڈا اور مارٹن ہیڈیگر کا فلسفہ ما بعد جدیدیت سماجی تنزلی اور انسانی سکون کی کمیابی کے اسباب کو نظریاتی "جبر” اور "فارمولائی” بحث سے جوڑتا ہے. حالانکہ یہ جھوٹ ہے. سرمایہ دارانہ صنعتی عہد میں جدید قوم اور جدید قومی ریاست کی تشکیل، جدید صنعتی معاشرے کے لئے درکار بنیادی ڈھانچے کی تعمیر، جاگیر داری کا خاتمہ، پارلیمانی جمہوریت کی استواری اور مذہب کو ریاست سے الگ کرنے میں "حکمران اتحاد” ناکام رہا ہے. حکمران اتحاد کی نااہلی، کمزوری اور بےایمانی کا ذمہ دار نظریات کو، نظریات کی عالمگیریت کو، کلیت پسندی کو اور ضابطہ بندی کو ٹھہرانا دھوکہ و فریب نہیں تو اور کیا ہے؟

تمام متمدن دنیا میں نظریاتی تعلیمات، عالمگیریت اور ضابطہ بندی سے بورژوا علم (سرکاری بھی اور اعتدال پسند بھی) بھڑکتا ہے اور سخت عداوت رکھتا ہے. ما بعد جدیدیت ایک ایسا سڑا ہوا جسم ہے جس کو دیدہ زیب لبادے میں اوڑھ کر اُس کی سرانڈ کو چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے. شخصی آزادی اور بےمُحابا نقطہ نظر وہ دلفریب اصلاحات ہیں جنکو استعمال کرکے ضابطہ بند اور منصوبہ بند نظریات کی نفی کی جارہی ہے. شخصی آزادی کی ضمانت ایک آذادی پسند نظام میں دستیاب ہے.

ما بعد جدیدیت کے مطابق ضروری نہیں کہ استحصال طبقاتی نوعیت کا ہی ہو. کیا یہ ایک فریب نہیں. ہمیں کہا جا رہا ہے کہ ہم نوشتہ دیوار سے صَرفِ نظر برت لیں. یا ہم اِس دنیا میں موجود طبقاتی تضاد کو دیکھیں ہی نہیں، کیا ہم اندھے ہیں؟ کیا اِس سماج میں طبقات کا کوئی وجود نہیں ہے؟ استحصال کسی بھی نوعیت کا ہو، لیکن استحصال ہو رہا ہے. کیا استحصال کرنے والا اور جس کا استحصال ہو رہا ہے، دو طبقات نہیں ہیں؟ کیا ظالم اور مظلوم دو طبقے نہیں ہیں؟ کیا اِب دو طبقات کے مابین جنگ نہیں ہے؟ جتنے بھی تجزیے کر کے دیکھ لیں، آخر میں تان معیشت پہ ہی آکر ٹوٹتی ہے. ایک ایسا سماج جس کی بنیاد ہی طبقاتی تضاد ہے، اُس سماج کسی "غیر جانبدار” سماجی سائنس کا موجود ہونا ممکن ہے؟ بالکل بھی نہیں!!!

مہا بیانیہ کے مقابلے میں مقامی بیانیے کو پیش کرنے کا اصل مقصد عالمگیریت کی نفی ہے. اور عالمگیریت کی نفی کے زریعے دراصل اشتراکیت کی راہ میں رکاوٹ ڈالی جا رہی ہے. ما بعد جدیدیت کا نظریہ حقیقت میں دشمن ہے اُن بہترین خیالات کا جو بنی نوع انسان نے عالمگیر فلسفے، سیاسی معاشیات اور اشتراکیت کی صورت میں میں تخلیق کئے تھے۔ چنانچہ انسانیت کے دشمنوں نے اپنا سارا زور اس پر لگایا ہوا ہے کہ مادیت کی ’’تردید کریں‘‘، اِس کی جڑ کاٹیں اور اسے بدنام کر دیں۔ اِنہوں نے ماضی میں فلسفیانہ عینیت کی مختلف شکلوں کی حمایت کی جو ہمیشہ کسی نہ کسی صورت میں مذہب کی تبلیغ یا اس کی تائید کو پہنچتی ہیں۔ ما بعد جدیدیت کی راہ بھی آخری تجزیے میں میٹافزکس تک جا نکلتی ہے.

ما بعد جدیدیت ہیگل کے فلسفہ تاریخی ارتقاء کو بالکل ہی رد کرتی ہے، کیوں؟ کیا پلازما فزکس اور کلاسیکل فزکس کی تازہ اور ماضی قریب کی سائنسی تحقیقات ہمیشہ نشوونما پاتے ہوئے مادے کی عکاسی نہیں کرتی ہیں؟ تاریخ اور سیاست کے میدان میں ہمیشہ سے ہی مربوط اور ہموار سائنسی نظریات کی جگہ افراتفری اور یک طرفہ فیصلوں کو دینے کی کوشش ہوتی رہی ہے، مگر ہم نہایت ثابت قدمی کے ساتھ فلسفیانہ مادیت کی مدافعت کریں گے اور اِس بنیاد سے انحراف اور گریز میں پوشیدہ سنگین غلط کاری کی بار بار وضاحت بھی کریں گے۔

محنت کش عوام اور غربت زدہ مظلوم طبقہ اپنی طبقاتی جدوجہد کے زریعے پہلے سے زیادہ تعلیم یافتہ، تربیت یافتہ اور باخبر ہو چکا ہے. مظلوم لوگ بورژوا سماج کے تعصبات کے جالوں سے نکلتا ہوا نظر آ رہا ہے. پہلے سے زیادہ متحد ہو چکا ہے اور سیکھ چکا ہے کہ اپنی کامیابیوں کو کیسے نامے؟ مظلوم طبقہ اپنی قوتوں کو فولادی بنارہا ہے اور اس طرح بڑھ رہا ہے کہ اسے روکنا ممکن نہ ہو گا.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے