ایبٹ آباد میں درندگی کی انتہا

جس ملک میں لوگ قانون کو ہاتھ میں لیکر خود فیصلے کرنے لگے۔ جزا اور سزا کے فیصلے چند افراد پر مشتمل جرگے کرنے لگے، عدالتیں برائے نام ہوں، وہاں پھر انہونی واقعات رونما ہونا کوئی نئی بات نھیں، ملک بھر میں ایبٹ آباد کو کالجوں کا شہر کہا جاتا ہیں، کیونکہ جب آپ ایبٹ آباد میں داخل ہوتے ہے تو آپ کو ہر جگہ سکول اور کالجز نظر آئے گے، تعلیم انسان کو انسان بناتا ہے اور زندگی کے طور طریقے، اچھائی اور برائی میں فرق سکھاتا ہے، لیکن بدقسمتی سے کچھ دنوں پہلے ایبٹ آباد کے ایک گاؤں میں ایسا دلخراش واقعہ پیش آیا جس سے انسانیت شرما گئی، ایبٹ آباد کے ایک کونسلر کی قیادت میں چند درندہ صفت لوگ مل بیٹھ کر ایک سولہ سالہ بچی کو پہلے مارتے اور پھر ایک گاڑی میں ان کی لاش کو رکھ کر پٹرول چھڑک کر ان کو آگ لگا دیتے ہے، اس بچی کی گناہ یہ کہ اس نے اپنی ایک سہیلی کو پسند کی شادی میں مدد فراہم کیا، اس لڑکی کو جس نے پسند کی شادی کی کو پہلے ہی قتل کیا گیا تھا۔

بیٹا پسند کی شادی کرے تو وہ جائز اور بیٹی کرے تو وہ ناقابل معافی گناہ بن جاتا ہے۔ آخر یہ دھرا معیار کب تک ہمارے معاشرے میں چلتا رہے گا، اور کتنی بےگناہ معصوم زندگیاں اس پرسودہ دوہری معیار کی بھینٹ چڑھے گی، ایبٹ آباد کا واقعہ پہلا نھیں ہے اس سے پہلے بھی بے شمار ایسے واقعات ہوئے ہیں جس میں لڑکی کو صرف اس بنا پر قتل کیا گیا کہ اس نے پسند کی شادی کی، اگر حکومت ا س وقت سخت فیصلے کرتی اور ملزموں کو سزا دیتی تو آج یہ واقعہ پیش نہ آتا لیکن ہماری حکومتیں ایک آدھ دن مذمتی بیان جاری کرتے ہے مجرموں کو عبرت ناک سزا دینے کے دعوے بھی کرتی ہے لیکن پھر یہ فائلیں سرد خانہ کی نظر ہو جاتی ہیں، اس بار بھی اگر حکومت نے اس سنگین مسلے کی طرف توجہ نہ دی، اور ملزموں کو انصاف کے کٹہرے میں لا کھڑا نہ کیا اور پہلے کی طرح صرف مذمت پر ہی اکتفا کیا تو پھر اس ملک میں رہنے والی حوا کے بیٹیوں کا حدا ہی حافظ ۔۔۔۔۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے