"خاموش قاتل”

"شاید کوئی میری سُنے ، میرے درد کا مداوا ہو، کوئی مدد ہی کردے۔۔۔”
” سسک سسک کے مرنے سے بہتر ہے کوئی "مرسی کلنگ” ہی کردے۔۔۔”
بڑی امیدیں اور آس لیے عدنان زندگی میں پہلی بار کسی آگہی سیمینار میں شرکت کررہاتھا، ملکی وغیرملکی شرکاء خطرناک بیماری سے متعلق شعور فراہم کررہے تھے، انگلش اور اردو دونوں میں تقاریر کے بعد ہال میں موجود چند ایک لوگ ہماری طرف اشارہ کرتے اور تالیاں بجانے کو کہتے،
آج 8 مئی کو ہم تھیلیسمیا سے آگہی کا دن منارہے ہیں ، اس سیمینار کے دوران ہم تھیلیسیما کیا ہے، اس کی کتنی قسمیں ہیں اور اس سے بچاو کیسے ممکن ہے، بتائیں گے، سیمینار کے بعد چائے سیشن اور پھر واک کی جائے گی۔۔
تالیوں سے اک بار پھر ہال گونج اُٹھا، اس بار کسی کے اشارے پر نہیں بلکہ چائے کے اعلان پر تھیلیسیما کی بیماری میں مبتلا مریضوں نے اپنی خوشی سے بجائیں۔۔۔
ایک مقرر نے اسٹیج پر اپنی ٹائی درست کی اور کوٹ کے بٹن لگا کر فرمانے لگے:
"تھیلیسیمیا” ایک موروثی بیماری ہے یعنی یہ والدین کی جینیاتی خرابی کے باعث اولاد کو منتقل ہوتی ہے۔ اس بیماری کی وجہ سے مریض کے جسم میںخون کم بنتا ہے۔
جینیاتی اعتبار سےتھیلیسیمیا کی دو بڑی قسمیں ہیں جنہیں الفا تھیلیسیمیا اور بی ٹا تھیلیسیمیا کہتے ہیں۔ نارمل انسانوں کے خون کے ہیموگلوبن میں دو الفا اور دو بی ٹا زنجیریں ہوتی ہیں۔۔ جن میں کمی بیشی سے خون بننے کی رفتار کم ہوجاتی ہے،
مرض کی شدت کے اعتبار سے تھیلیسیمیا کی تین قسمیں ہیں۔ شدید ترین قسم تھیلیسیمیا میجر کہلاتی ہے اور سب سے کم شدت والی قسم تھیلیسیمیا مائینر کہلاتی ہے۔ درمیانی شدت والی قسم تھیلیسیمیا انٹرمیڈیا کہلاتی ہے۔
موصوف اپنی سائنسی ٹرمنالوجی میں تھیلیسمیا کے بارے میں فرمارہے تھے، جبکہ سامنے بیٹھے شرکا اپنے بیش قیمت موبائل ، لیپ ٹاپ اور پیڈز پر مصروف تھے، اور مریضوں کے سر سے گزر رہی تھی اس لیے وہ دعائیں کرتے وقت گزرنے کے منتظر ۔۔۔
"کسی کو تھیلیسیمیا میجر صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب اسکے دونوں والدین کسی نہ کسی طرح کے تھیلیسیمیا کے حامل ہوں۔ تھیلیسیمیا میجر کے مریضوں میں خون اتنا کم بنتاہے کہ انہیں ہر دو سے چار ہفتے بعد خون کی بوتل لگانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ایسے بچے پیدائش کے چند مہینوں بعد ہی خون کی کمی کا شکار ہو جاتے ہیں اور انکی بقیہ زندگی بلڈ بینک کی محتاج ہوتی ہے۔ کمزور اور بیمار چہرے والے یہ بچےکھیل کود اور تعلیمدونوں میدانوں میں پیچھے رہ جاتے ہیں اور معاشرے میں صحیح مقام نہ پانے کی وجہ سے خود اعتمادی سے محروم ہوتے ہیں۔ بار بار خون لگانے کے اخراجات اوراسپتالوں کے چکر والدین کو معاشی طور پر انتہائ خستہ کر دیتے ہیں جس کے بعد نامناسب علاج کی وجہ سے ان بچوں کی موت واقع ہو جاتی ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں بہترین علاج کے باوجود یہ مریض 30 سال سے 40 سال تک ہی زندہ رہ پاتے ہیں۔ پاکستان میں ایسے مریضوں کی عمر لگ بھگ دس سال ہوتی ہے۔ اگر ایسے بالغ مریض کسی نارمل انسان سے شادی کر لیں تو انکے سارے بچے لازماً تھیلیسیمیا مائینر کے حامل ہوتے ہیں۔”
طویل خطاب کے بعد شرکا میں شامل ایک صاحب نے کہا ان کی احتیاطی تدابیر پر روشنی ڈال دیں تو یہ بہتر پیش رفت ہوگی۔۔
تھیلیسیمیا مائینر یا میجر کے افراد کی آپس میں شادی نہیں ہونی چاہیے۔
جن خاندانوں میں یہ مرض موجود ہے انکے افراد کو اپنے خاندان میں شادی نہیں کرنی چاہیے۔
اگر ایسے افراد شادی کر چکے ہوں تو وہ بچے پیدا کرنے سے پہلے ماہرین سے ضرور مشورہ کریں۔
اگر ایسے افراد شادی کر چکے ہوں اورحمل ٹھہر چکا ہو تو حمل کے دسویں ہفتے میں بچے کا تھیلیسیمیا کا ٹیسٹ کروایں۔
بہت زبردست تالیاں،،،
"جناب کوئی علاج بھی تو ہوگا یہ صرف خون کی بوتلیں چڑھاتے جائیں اور موت کا انتظار کریں”۔۔۔ ایک مریض نے چڑ کر سوال داغ دیا
تھیلیسیمیا ایک جینیاتی بیماری ہے اور یہ ساری زندگی ٹھیک نہیں ہوتی۔ اگر خون کی کمی ہو تو تھیلیسیمیا مائینر کے حامل افراد کو روزانہ ایک ملی گرام فولک ایسڈ کی گولیاں استعمال کرتے رہنا چاہیے تاکہ ان میں خون کی زیادہ کمی نہ ہونے پائے۔ خواتین میں حمل کے دوران اسکی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔تھلیسیمیا میجر کا علاج ہڈی کے گودے”بون میرو ٹرانسپلانٹ” کی تبدیلی سے بھی ہو سکتا ہے جس پر 15 سے 20 لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔
خوب ۔۔۔ واہ ۔۔۔ معلوماتی ۔۔۔ تالیاں
پاکستان میں جینوم ٹیکنالوجی کی مدد سے تھیلیسیمیا میں مبتلا بچوں کا علاج ممکن ہوگیا، جینوم ٹیکنالوجی کی مدد سے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف بلڈ ڈیزیز نے پہلی بار ایک ایسی دوا پرکامیاب تحقیق مکمل کی گئی ہے جس کے استعمال سے تھیلیسیمیا کے مرض میں مبتلا بچوں کے جسم میں خون بننے کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔
پاکستان میں تھیلیسیمیاکے مریضوں کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے اور ایک مریض پر انتقال خون سمیت دیگر دواؤں سے علاج کی مد میں سالانہ 2 لاکھ 85 ہزار روپے خرچ آتا ہے جس کا مطلب سالانہ پاکستانی قوم28 ارب سے زیادہ تھیلیسیمیا کے بچوں پرخرچ کررہی ہے۔
مزید معلومات پر جہاں یہ پتا چلا کہ تھیلیسیما کی بیماری کا علاج دریافت ہوگیا ہے وہیں بھاری رقوم کا رونا رو کر عجیب خفت میں ڈال دیا،،،
تھیلیسیما میجرمیں مبتلاعدنان کا صبر جواب دینے لگا، اب وہ کسی واک میں شرکت کرنا نہیں چاہتا، اس کے دماغ میں جھٹکے لگنا شروع ہوگئے ، قریب تھا کہ وہ بیہوش ہوکر گر جاتا کسی نے اسے سہارا دے کر پانی پلایا اور کہا” بھائی کچھ دیر انتظار پھر چائے کھانا بھی ہوگا اور کچھ رقم بھی مل جائے گی ، عین ممکن ہے سماجی تنظیموں کی ان کاوشوں کے نتیجے میں ہمیں بھی مفت خون یا رقوم مل جائیں ،،،”
عدنان نے روہانسی شکل بنا کر کہا "میرے عزیز ۔۔۔ میں تو بچپن سے ہی اس بیماری میں مبتلا ہوں، والد نے کما کما کرسب مجھ پر لگا دیا، ماں نے خون اور پیسوں کی خاطر گردہ بیچ دیا اب وہ بستر مرگ پر ہے اورمیں یوں مر رہا ہوں ،،، مزید کتنا اور کیسے صبر کروں۔۔”
ہر گزرتے وقت کے ساتھ تکلیف میں اضافہ ہورہا تھا، جینے کے لیے پیسوں کی سخت ضرورت ہے اورکمانے کےلیے صحت لازم ،،،
یہ وقت اور دن بھی گزرگیا
میڈیا اور سوشل میڈیا پر۔۔۔اور مختلف فورمز میں 8 مارچ کو بڑی دھوم دھام سے ماوں کا عالمی دن منایا گیا، اور تھیلیسمیا پر شاید آخر میں کوئی چھوٹی خبر لگ گئی ہو، لیکن عملی طور پر کوئی اقدام نہ تھا، میری ماں جیسی کتنی مائیں بلک بلک پر زندگی کی دہائی دے رہی ہوں گی، مجھ سے نوجوان ، اور بچے کس کرب میں ہوں گے،
کسی نے ان کی نہیں سُنی میری نہیں سُنی۔۔۔آج بڑی امید سے یہاں آیا تھا لیکن ان کی باتوں اور نیتوں سے معلوم ہورہا ہے کہ چند پیسے بٹورنے کے لیے ہم غریبوں اور مجبوروں کا استعمال کیا جارہا ہے، سیمینار اور واک کے اہتمام سے چند تجوریاں بھریں گی لیکن ہماری زندگیوں کے کشکول خالی رہیں گے،
آج شاید میرا یا میری ماں کاآخری دن ہو، کیوں ہمارے پاس نہ کھانے کوپیسے ہیں نہ علاج کے۔۔
تمھیں صرف یہی کہہ سکتا ہوں کہ ماں کا عالمی دن اور تھیلیسیما کا عالمی دن مبارک ہو۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے