” 440 چور”

کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں
یہ کہانی آج کی نہیں بلکہ برسوں پرانی ہے، جب پاکستان کی جانب سے پہلی آف شور کمپنی قائم کی گئی ہے۔۔
یہ آف شور کمپنیاں کیا ہیں ،یہ کس قانونی حیثیت کی حامل ہیں اور ان کے مقاصد کیا ہیں ؟
پہلے یہ دیکھ لیں پھر 440 چوروں کے چٹھے کھولیں گے

برطانیہ ، ماریشس اور قبرص سمیت لاطینی امریکہ کے کئی ممالک نے اپنے ساحلوں سے دور جزائر میں بیرونی سرمایہ کاری کے حصول کے لئے آف شور کمپنیاں قائم کرنے کی اجازت دے رکھی ہے ۔ایسی کمپنیوں کے اصل مالکان پس پردہ رہتے ہیں ،ان ممالک نے یہ کمپنیاں ایسے علاقوں یا جزائر میں قائم کرنے کی قانونی اجازت دے رکھی ہے جہاں ان کے ٹیکس کے قوائد و ضوابط اور قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا ۔دوسرے لفظوں میں آف شور کمپنیوں میں لگایا گیا سرمایہ ٹیکس سے مستثنیٰ ہوتا ہے ۔
دھیان رہے ٹیکس سے مستثنی اپنے ملک میں بھی اور بیرون ملک بھی۔۔
گویا دونوں ہاتھ تیل میں اور سر کڑھائی میں۔۔
قانونی ماہرین کے مطابق آف شور کمپنیوں کے مالک عوامی اور سرکاری عہدیدار رہوں توان سے قومی احتساب بیورو (نیب)بھی تفتیش کرسکتا ہے اور اگر یہ اثاثے چھپائے گئے ہوں یا پھر ناجائز ذرائع سے حاصل کئے گئے ہوں تو سرکاری اور عوامی عہدیداروں کو قید با مشقت کے علاوہ نااہلی کی سزا بھی دی جاسکتی ہے جبکہ ٹیکس چھپانے کے جرم میں 3سال تک قید کی سزا ہوسکتی ہے
دنیا بھر سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے خفیہ اکاونٹس اور کمپنیوں سے متعلق دستاویزات شائع کر کے تہلکہ مچانے والی پاناما لیکس کا دوسرا ایڈیشن بھی منظر عام پر آ گیا ہے جس میں وزیراعظم پاکستان کو آڑے ہاتھوں لینے والی جماعت تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے فنانسر اور علیم خان سمیت سیکڑوں پاکستانیوں کے نام شامل ہیں۔
پاناما لیکس کی جانب سے جو نئی دستاویزات شائع کی گئی ہیں ان میں مزید 400 پاکستانیوں کے نام شامل ہیں، آئی سی آئی جے کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق آف شور کمپنیوں کے ذریعے 12 کھرب ڈالر سے زائد سرمایہ بیرون ممالک منتقل کیا گیا
عمران خان کے فنانسر اور قریبی دوست ذوالفقار عباس بخاری عرف زلفی 6 آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں جب کہ پی ٹی آئی رہنماعلیم خان کا نام بھی آف شور کمپنیاں بنانے والوں کی فہرست میں شامل ہے۔سابق وزیراعظم شوکت عزیزدور کے وزیر صحت نصیر خان کے بھائی ظفراللہ خان اور بیٹے محمد جبران کی بھی آف شورکمپنی ہے۔ اس کے علاوہ لاہور سے تعلق رکھنے والے سیٹھ عابد کے بیٹے ساجد محمود ورجن آئی لینڈ میں کمپنی کے مالک نکلے، سیٹھ عابد کے خاندان کی 30 آف شورکمپنیاں منظرعام پر آئی ہیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری اور ایم کیو ایم قائد الطاف حسین کے دوست عرفان اقبال بھی 3 آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں۔
پورٹ قاسم اتھارٹی کے سابق ایم ڈی عبدالستار ڈیروکی بھی غیرملکی کمپنیاں ہیں، کراچی چیمبر آف کامرس کے سابق صدرشوکت احمد کے نام کمپنی رجسٹرڈ، بیٹا اور بہو شیئر ہولڈرز میں شامل ہیں۔ آسکر ایوارڈ یافتہ شرمین عبید چنائے کی والدہ صباعبید بھی 3 غیر ملکی کمپنیاں رکھتی ہیں۔
ایڈمرل ریٹائرڈ مظفرحسین کے صاحبزادے اظہرحسن بھی ایک غیرملکی کمپنی میں شیئر ہولڈرہیں، پیپلزپارٹی کی سابق سینیٹر رخسانہ زبیر نے بھی غیرملکی کمپنی میں سرمایہ کاری کی جب کہ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے کزن طارق اسلام بھی آف شور کمپنی رکھنے والوں کی فہرست میں شامل ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ پاناما لیکس نے اپنے پہلے ایڈیشن میں آف شور کمپنیاں یا پھر خفیہ اکاونٹس رکھنے والے 250 پاکستانیوں سمیت دنیا بھر سے تعلق رکھنے والی 10 لاکھ سے زائد شخصیات کے نام شائع کئے تھے، کراچی کے 150 شہری کمپنیوں کے مالک، تو سو سے زائد لاہوری بھی اس کا حصہ ہیں۔۔
ان آف شور کمپنیز کو برٹش ورجن آئی لینڈ، بہاماس اور پاناما میں بنایا گیا، برٹش ورجن آئی لینڈ میں 153 پاکستانیوں کی کمپنیاں ہیں۔
پاناما لیکس کے مطابق پاکستان میں سیف اللہ خاندان سب سے زیادہ آف شور کمپنیوں کا مالک ہے۔ سیف اللہ خاندان کے سات افراد 30 سے زائد کمپنیوں کے مالک ہیں۔ ان میں جاوید سیف اللہ کا پہلا نمبر ہے جن کی 17 آف شور کمپنیاں ہیں۔
پاناما لیکس کے مطابق سب سے پرانی کمپنی 1988ء میں میاں ضیا الدین طور کے نام سے بنائی گئی جبکہ سب سے نئی کمپنی 2015ء میں ماجد صدیقی داؤد کے نام سے رجسٹرڈ ہوئی۔ 2007 میں ستائیس کمنپیوں کی رجسٹریشن کی گئی۔ پاناما لیکس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ جنگ گروپ کے سربراہ میر شکیل الرحمان بھی میرین پراپرٹیز لمیٹڈ نامی آف شور کمپنی کے مالک ہیں
پانامالیکس کی پہلی قسط میں وزیراعظم نوازشریف کے صاحبزادوں کے نام سامنے آنے پر وزیراعظم نے معاملے کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن کے قیام کا اعلان کیا تھا جب کہ اپوزیشن جماعتوں نے پاناما لیکس میں وزیراعظم کے خاندان کا نام منظرعام پر آنے کے بعد ان سے استعفے کا مطالبہ کیا تھا۔
انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹیگیٹو جرنلسٹس(آئی سی آئی جے) کا کہنا ہے کہ ’ اس ڈیٹا یا معلومات میں بینک کے کھاتوں، مالی لین دین، ای میلز اور دیگر خط و کتابت، پاسپورٹ اور ٹیلی فون نمبروں کی تفصیلات شامل نہیں ہوں گی۔ منتخب شدہ اور محدود معلومات، جو مفادِ عامہ میں ہیں، صرف وہ ہی جاری کی جا رہیں ہیں۔
ٹیکس بچا کر اور کالے دھن کو سفید کرکے آف شور کمپنیاں بنانے والے کیا چور نہیں، جو بیرونی سرمایہ کاری ملک میں کیا لاتے ، بلکہ اپنا سرمایہ ہی باہر بھیج دیا، اور عوام کو دھرنوں ایک دوسرے پر الزامات کے نام پر سیاست چمکائی اور خوب چونا لگایاک

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے