سولر بچوں کا علاج اور خاموش ہیرو

سات مئی کی رات مجھے ایک دوست کے فون نے بتایا کہ اس کی بیس سال سے زائد طب کی پیشہ وارنہ زندگی میں ایسا معجزہ نہیں ہوا۔ کوئٹہ کے سولر بچے جو رات میں ادھ مو بے ہوش پڑے ہوتے تھے۔ شام کو نہ صرف ہوش میں رہے بلکہ انہوں نے چہل قدمی بھی اور سیڑھیاں بھی چڑھیں۔ یہ خبر دنیا نیوز سب سے پہلے بریک کی ۔ بچوں کی چلنے کی وڈیو حاصل کرنے کے لیے بھاگ دوڑ کی اور ایک بچہ عبد الرشید ہماری فرمائش نہ نہ صرف سوتے میں سے مسکراتا ہوا اٹھا اور بلکہ یہاں سے وہاں چھلانگیں مارتا ، تمام لوگوں کو ششدر کرگیا۔

بعد میں ڈاکٹر سے اور بچوں کے باپ ہاشم سے بھی ملاقات ہوئی اور ان کی خوشی کا بھی کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ ہاشم نے بتایا کہ اس کا بڑا بیٹا تیرہ سال اور چھوٹا عبد الرشید نو سال میں کسی ایک شام بھی نہیں جاگے اور نیم مردہ حالت میں پڑے رہتے تھے۔ وہ بڑا پریشان رہتا ۔ آج نہ صرف وہ خوش ہے بلکہ پورے گاؤں میاں کنڈی کا ایک ایک گھرانہ خوش ہے۔ اسپتال میں بچوں کے وارڈ میں بھی ہر چہرہ کھل اٹھا تھا۔ وارڈ بوائے، طبی عملہ، ڈاکٹر اور حتی کے وہاں موجود سیکوریٹی گارڈ بھی خوش تھے۔ مجھے ایسے میں تمام خاموش ہیروز یاد آ رہے تھے جنہوں نے ان بچوں کے لیے سب سے زیادہ محنت کی۔ چاہے وہ خاموش ہیرو میڈیا میں ہوں، ڈاکٹر کی شکل میں مسیحا ہوں۔ پوری قوم کی دعائیں اور دعاؤں کو سننے والا اور قبول کرنے والا، مالک خداداد۔ اس میں ایک خاموش ہیرو بھی تھا۔ جس کا نام کہیں موجود نہیں۔

یہ ڈاکٹر مظہر بادشاہ ہے اور اس کا معاون خاص ڈاکٹر عرفان۔ ان لوگوں نے مایوسی کے اندھیروں میں چراغ جلانے کے لیے سب سے زیادہ کوششیں کیں۔ جو دوائی ان کے لیے تجویز کرنا تھی اس پر دو روز مسلسل تحقیقات کرتے رہے اور ان بچوں کے اسلام آباد آنے سے پہلے یہ دونوں ڈاکٹر ان بچوں کے لیے ادویات پر تحقیق کر رہے تھے۔ ڈاکٹر مظہر بادشاہ نے بات ہوئی اورانہوں نے میڈیا میں اپنا نام ظاہر کرکے خود نمائی سے پرہیز کیا۔ مجھے بعد میں یہ خیال آیا کہ اگر اس ڈاکٹر مظہر بادشاہ کے نام کو آج چھپا لیا گیا تو قوم کے مزید بچے علاج کے لیے زیادہ پر امید نہیں ہوں گے اسی لیے اس خاموش ہیرو کے بے نقاب کردیا ہے، ذہنی طور پر معذور بچوں کے والدین امید کا دامن تھامیں رکھیں اور ڈاکٹر اور جدید تحقیق پر انحصار کریں اور دعائیں کریں تو اللہ معجزے کرسکتا ہے کیونکہ اللہ تعالی کو صرف کہنا ہے کہ ہوجا اور ہوجاتا ہے۔ ہمیں اللہ سے مانگنے کا طریقہ آنا چاہیے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے