سوات میں بچوں کےریپ، ویڈیو اسکینڈل کا انکشاف

مینگورہ: مقامی پولیس نے بچوں کے ساتھ ریپ اور پورنوگرافی کیس میں مبینہ طور پر ملوث گینگ کے ایک اہم رکن کو گرفتار کرلیا۔

اس کیس کے انکشاف کے بعد عوام میں شدید بے چینی پھیل گئی جبکہ سول سوسائٹی اراکین نے صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ واقعے کے قصورواروں کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے۔

مذکورہ گینگ بچوں کو اغواء کرنے کے بعد انھیں اپنے انڈر گراؤنڈ سیلز میں زبردستی جنسی عمل (سیکس) پر مجبور کرتا اور اس دوران ان کی ویڈیو بھی بنائی جاتی۔

مینگورہ کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس (ڈی ایس پی) صادق اکبر نے بتایا کہ چند روز قبل پولیس نے ایک 13 سالہ لڑکے کی فراہم کردہ معلومات کی بناء پر ایک مشتبہ ملزم اورنگزیب کو گرفتار کیا تھا۔ مذکورہ لڑکے کو 2014 میں اغواء کیا گیا تھا، جسے حال ہی میں چھوڑا گیا۔

صادق اکبر نے مزید بتایا کہ پولیس نے تفتیش کی غرض سے جوڈیشل مجسٹریٹ سے اورنگزیب کا 3 روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کرلیا ہے۔ انھوں نے مزید بتایا کہ ملزم کو آج (بروز بدھ) دوبارہ عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

ڈی ایس پی اکبر نے مزید بتایا کہ اورنگزیب کو ایک 14 سالہ لڑکے کے ساتھ سیکس کرتے وقت گرفتار کیا گیا جبکہ اس کی رہائش گاہ سے ہتھکڑیاں اور زنجیریں بھی برآمد کی گئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ 14 سالہ لڑکے کے والد نے اس کی گمشدگی کی رپورٹ 28 ستمبر 2014 کو درج کروائی تھی، جبکہ واقعے کا مقدمہ مینگورہ پولیس اسٹیشن میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 342 (ناحق قید)، 347 (کسی شخص کو غیر قانونی کام پر مجبور کرنے کے لیے ناحق قید)، 365 (اغواء)، 377 (غیر معمولی جرم) اور 506 (مجرمانہ دھمکیوں) کے تحت درج کیا گیا۔

دوسری جانب رہائی پانے والے 13 سالہ لڑکے نے بتایا کہ وہ بازار میں ٹافیاں خریدنے گیا تھا کہ جب 2 افراد (جن کی شناخت اس نے سجاد اور عمر خالق کے نام سے کی) نے اس کے منہ پر کوئی چیز رکھی اور گاڑی میں ڈال کر لے گئے، ‘جب کچھ دیر بعد میں ہوش میں آیا تو میں نے خود کو ایک کمرے میں پایا جہاں اورنگزیب نے مجھے اپنے ساتھ سیکس کرنے پر مجبور کیا’۔

مذکورہ لڑکے کے مطابق ملزم اسے روزانہ تشدد کا نشانہ بناتا تھا۔

لڑکے نے دعویٰ کیا کہ اس جرم میں کچھ پولیس اہلکار بھی ملوث ہیں کیوں کہ وہ بھی وہاں آتے تھے اور اپنی ہوس پوری کرتے تھے۔ ‘ ایک دن ایک پولیس اہلکار نے اورنگزیب کو ممکنہ پولیس چھاپے سے متعلق اطلاع دی، جس کے بعد 2 سہولت کاروں نے مجھے گاڑی میں ڈالا اور بری کوٹ کے مقام پر پھینک کر چلے گئے۔

دوسری جانب شیرین زادہ کے نام سے شناخت کیے جانے والے ایک شخص نے مقامی صحافیوں کو سیکڑوں کی تعداد میں تصاویر اور ویڈیوز فراہم کیں، جو مبینہ طور پر اورنگزیب کی مختلف لڑکوں کے ساتھ ریپ کے دوران بنائی گئیں۔

شیرین زادہ نے دعویٰ کیا کہ یہ مواد اسے اس کے ایک مخبر نے فراہم کیا۔ اس نے صحافیوں کو بتایا کہ اس کے بھتیجے کو بھی اسی گینگ نے اغواء کیا تھا جو ابھی تک ان کے قبضے میں پے۔

حیرت انگیز طور پر پولیس نے شیرین زادہ کو بھی گرفتار کرلیا جو اس کیس کا ایک مدعی ہے۔

صحافیوں نے مذکورہ مواد سوات کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) سلیم مروت کے حوالے کردیا جنھوں نے میڈیا نمائندوں کے مطالبے پر ڈی ایس پی صادق اکبر کی سربراہی میں واقعے کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بھی تشکیل دے دی۔

دوسری جانب سوات میں بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک سماجی کارکن نیلم چٹان نے ڈان کو بتایا کہ پولیس کی نااہلی اور والدین کی غیر ذمہ داری کے باعث سوات میں بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوگیا ہے۔

انھوں نے کہاکہ گینگ کے تمام اراکین کو فوری طور پر گرفتار ہونا چاہیے اور انھیں سخت سے سخت سزا دی جانی چاہیے۔

نیلم کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کو صوبے میں بچوں کے تحفظ کے حوالے سے اقدامات اٹھانے چاہیئں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے