حکومت نے لال مسجد سے متعلق فلم پر پابندی عائد کر دی .

پاکستانی سینسر بورڈ نے ایک ہفتے کے اندر اندر دوسری فلم پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اس مرتبہ پابندی پاکستانیوں اور اُن کی شناخت کے موضوع پر بنی ایک ایسی دستاویزی فلم پر لگائی گئی ہے، جو متعدد ایوارڈ بھی وصول کر چکی ہے۔

سینسر بورڈ کی کلہاڑی گری ہے، Among the Believers نامی ایک دستاویزی فلم پر۔ اس فلم کے ڈائریکٹر محمد علی نقوی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’پاکستان میں نہ صرف فلموں پر پابندی لگ رہی ہے بلکہ ذرائع ابلاغ کی آزادیوں پر بھی قدغن لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کراچی میں ایک صحافی کی گرفتاری اِس بات کی عکاس ہے۔

محمد علی نقوی نے بتایا:’’یہ دستاویزی فلم اب تک بارہ ایوارڈز جیت چکی ہے اور بیس سے زائد ممالک میں ریلیز کی جا چکی ہے۔ اس فلم کو پاکستان میں دو روزہ Face Film Festival میں ریلیز ہونا تھا، جس کا افتتاح 29 اپریل کو ہوا۔ ہمیں 25 اپریل کو سینسر بورڈ سے خط موصول ہوا، جس میں ہمیں پابندی کے حوالے سے آگاہ کیا گیا۔‘‘

سترہ اپریل 2015ء کو نیویارک میں فلم ’امنگ دی بیلیورز‘ کی نمائش کے موقع پر (دائیں سے بائیں) ڈائریکٹرز محمد علی نقوی، حمل تریویدی اور پروڈیوسر جوناتھن گُڈمین لیوٹ
سترہ اپریل 2015ء کو نیویارک میں فلم ’امنگ دی بیلیورز‘ کی نمائش کے موقع پر (دائیں سے بائیں) ڈائریکٹرز محمد علی نقوی، حمل تریویدی اور پروڈیوسر جوناتھن گُڈمین لیوٹ

فلم کے بارے میں بتاتے ہوئے محمد علی نقوی نے مزید کہا، ’’یہ فلم میں نے اور میری کو ڈائریکڑ حمل تریویدی نے بنائی ہے، اس کی کہانی پاکستانیوں اور ان کی شناخت کے گرد گھومتی ہے، اس میں مولانا عبدالعزیز اور دوسرے پاکستانیوں کا تصورِ پاکستان دکھایا گیا ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ تعلیم کس طرح شخصیت کو متاثر کرتی ہے۔ کہانی میں ایک بچہ جو مدرسے میں پڑھتا ہے، اس کی شخصیت کا موازنہ ایک ایسی بچی سے کیا گیا ہے، جو ایک عام سے اسکول میں پڑھتی ہے۔‘‘

نقوی کا کہنا تھا کہ ان کی فلم پر پابندی بلا جواز ہے:’’یہ فلم پاکستان کی معروضی حقیقت کو بیان کرتی ہے، اس میں صرف مولانا عبدالعزیز ہی نہیں بلکہ معاشرے کے دوسرے کردار بھی ہیں۔ فلم میں ایک ایسے شخص کو بھی دکھایا گیا ہے جس نے تعلیم کے فروغ کے لیے زمین دی۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں فلم کے ہدایت کار کا کہنا تھا کہ یہ فلم 86 منٹ کے دورانیے پر مشتمل ہے، جس میں 82 منٹ اسلام آباد میں شوٹ کیے گئے۔

سینسر بورڈ کے چیئرمین مبشر حسن نے پابندی کا دفاع کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا،’’یہ دستاویزی فلم کوڈز آف سینسر بورڈ 1980ء کے خلاف ہے، اس کے علاوہ یہ موشن پکچرز آرڈیننس 1979ء کی شقوں کی بھی خلاف ورزی کرتی ہے، اسی لیے اس پر پابندی لگائی گئی ہے۔‘‘

بشکریہDW

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے