ناک شریف اور کھجلی شریف

شریف صاحب کے ناک شریف کے دائیں نتھنے شریف میں کئی روز سے ہی شدیدکھجلی شریف ہو رہی ہے (کیوں کہ وہ خود شریف ہیں اس لئے انکے جسم شریف کے کسی بھی حصے اور اس پر بیتنے والے عوامل کے ساتھ شریف لگانا ضروری قرار پایا ہے) تو میں کہ رہا تھا کہ شریف صاحب کے ناک شریف کے کے دائیں نتھنے شریف میں کئی روز سے ہی پھر وہی شدید کھجلی شریف ہو رہی ہے۔اگرچہ عام حالات میں انکی ناک شریف ایسی نہ تھی کہ جس پر ہیبت ناک ہونے کا گماں ہو لیکن اس وقت وہ اپنے اصل حجم سے قدرے پھولی ہوئی اور اپنے اصل رنگ سے منہ موڑ ے ہوئے تھی۔جسکے باعث معاشرے میں انکی اونچی ناک شریف پر قدغن لگ سکتا ہے۔ مسلسل چھینکیں مارنے کے بعد وہ یہ سوچ کر بھی خدا کا شکر بجا لانے پر مجبور تھے کہ یہ خارش فی الحال انکی ناک شریف تک ہی محدود ہے وگرنہ کھجلی تو کھجلی ہے انکی تشریف میں بھی لاحق ہو سکتی تھی ۔ اور دشمن تو اسکی بارہا کوششیں بھی کرتے رہتے ہیں۔چونکہ انکے مطابق وہ شریف تھے اس لیے لامحالہ انکے کسی بھی حریف کو بدمعاش ہی سمجھا جا سکتا ہے لیکن خیال یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ حریفوں کی پیش قدمیوں میں کوئی شریف بھی شامل حال ہے۔

اگرچہ انکو یہ خارش پہلی مرتبہ لاحق نہیں ہوئی ۔وہ کئی مرتبہ اس کی اذیت کو برداشت کر چکے ہیں انہیں اچھی طرح یاد ہے جب پچھلے دور شرافت میں ان پر اس بیماری نے شدید حملہ کیا تھا اور انہیں اس کی شدت سے گھبرا کر باہربھاگنا پڑا تھا اور ایسے میں پرانی سے پرانی خارش کے خاتمے کا بورڈ لگائے ہوئے انکے احباب اپنی گجراتی سائیکل کا رخ موڑ چکے تھے۔پھر پردیس میں برسوں کھجور اور زیتون کے علاج کے بعد ہی وہ قدرے صحت یابی کے بعد لوٹے تھے۔لیکن لوٹنے کے بعد بھی اپنی کھجلی زدہ ناک کو ہیبت ناک سے اونچی ناک ثابت کرنے میں انکو برسوں لگ گئے لیکن آئے روز کی کھجلی کے باعث اب بھی انکی ناک شریف ہیبت ناک تو نہیں لیکن افسوسناک ضرور دکھائی دیتی ہے۔کیوں کہ کئی مالشیوں سے مساج کرواتے رہنے اورمسلسل ویکسین لینے کے باوجود یہ کم بخت خارش کی بیماری تھی کہ مکمل طور پر جان نہ چھوڑتی۔اگرچہ انہوں نے ان کئی پرانے مالشیوں سے جان چھڑوا لی تھی جو دور سابق میں انکی خوب سے خوب تر خوشبودار مالش کرتے رہے لیکن ماضی میں کھجلی کو انکے تمام جسم پر پھیلتے دیکھ کر انہوں نے آنکھیں پھیریں اورنئے صحتمندجسموں کی مالش میں مصروف ہو گئے تھے۔ زیتونی علاج سے صحت یابی کے بعد انہوں نے ان بیشتر مالشیوں کومسترد کر دیا تھا حالانکہ اس مرتبہ کئی مالشیوں نے انہیں اپنے اپنے تیل کی ست رنگی دھار بھی دکھائی ۔ لیکن چونکہ ایک تو وہ بے وفا نکلے تھے اور دوسرا نئے مالشئے بھی کچھ کم نہ تھے سو انکا ان بے وفا مالشیوں مائل بہ کرم نہ ہوئے۔ جس کے نتیجہ میں بیشترمالشئے انکے خلاف ہو گئے ۔ انکا ایک سابقہ بے وفا مالشیا ماضی میں جسکی مالش کے آگے تمام مالشئے ہیچ تھے اب انکی مخالفت میں حد سے ایسا بڑھا ہوا تھا کہ حریفوں کے خرچے پر ہر وقت انکی خارش کے مرض کو ہوا ہی دیتا رہتا ۔

شریف صاحب اگرچہ اس مرض سے اور حریفوں کے ٓآئے روز کے خارشی جراثیمی حملوں سے بہت پریشان ہی رہتے تھے۔ لیکن آج کل تو انہیں تشویش یہ تھی کہ مرض کے مزید پھیلنے کا خدشہ لاحق تھا۔وہ اپنی ناک شریف کے اندر ہو رہی اس خارش کی شدت سے آگاہ تھے۔کہ یہ دو سال قبل کی خارش سے بڑھ کر تھی۔کیوں کہ انہوں نے اس شدید کھجلی پر تو اپنے صبر و استقلال اور خارش پر قابو پانے والے آئینی اور جمہوری مرہم سے عارضی طور پر قابو پا لیا تھا۔ لیکن اس مرتبہ والا حملہ ایسا شدید تھا کہ بیماری پھیلتی ہی جا رہی تھی وہ تو شکر خدا کا کہ اس خارشی حملے میں انکے کئی حریفوں سمیت چار سو اور بھی متاثر ہو گئے وگرنہ اکیلے اس کھجلی سے نمٹنا ان کے بس کی بات نہ تھی۔اب ان کے مالشئے رنگ برنگ تیل سے انکی مالش کرتے وقت حریفوں کی بیماری پر بھی پھببتیاں کستے تو انکی پرانی خارش کو بھی کچھ سکون میسر آتا۔

لیکن حیرت اس بات پرہے کہ شریف صاحب کھجلی کے پرانے مریض ہونے کے باوجود تاحال یہ سادہ سی بات کیوں نہ سمجھ پائے تھے کہ صرف رنگ برنگ تیل ،مالشیوں کی کہنہ مشکی اور جمہوری مرہم ہی اس پرانے مرض کا مکمل علاج نہیں ہے۔ پرانی کہاوت ہے کہ پرہیز علاج سے بہتر ہے۔ اس لیے انہیں پرہیز بھی کرنا ہوگا ،انہیں بیماری کی جڑ بھی پکڑنی ہو گی۔ انہیں ہر اس جگہ گھسنے سے پرہیز کرنا ہوگا جہاں خارش لگا دینے والے جراثیم بکثرت پائے جاتے ہیں۔انہیں کرپشن کی دیگ میں پکنے والے ان تمام گرم پکوانوں سے پرہیز کرنا ہوگا جن میں حرام مصالحے ڈلتے ہیں اور سور کی چربی کے تیل سے تڑکا لگایا جاتا ہے۔ دیگوں پر بھی نظر رکھنی ہو گی اور انکے پکانے ،کھانے اور بانٹنے والوں پر بھی ۔انہیں گدھے کے گوشت کی نہاری اور پائے کی مسحور کن خوشبو کو رد کرنا ہوگا۔ انہیں ہر اس باغ کے خوشنما پھلوں کا ذائقہ بھولنا ہوگا جسکے درختوں کی جڑوں میں عوامی سستے خون کی کھاد ڈالی جاتی ہے۔ انہیں اس افہیم چڑھی چاکلیٹ کو چھوڑنا ہوگا جسے کھا کر انسان مدہوش ہو جاتا ہے۔ اس خوراکی پرہیز کے بعد اگر خارشی جراثیم ان پر حملہ کریں گے تو شاید پھر عوامی مرہم کے استعمال سے یہ مکمل طور پر صحت یاب ہونے میں کامیاب ہو جائیں۔ مالشیوں کی ضرورت بھی باقی نہ رہے گی اور زیتونی علاج کی بھی ۔لیکن جب تک پرہیز نہ ہوگا جمہوری مرہم اثر نہ کرے گا۔۔مرض پھیلتا رہے گا اور وہ ایک خارش زدہ شریف ہی رہیں گے ۔ شریف صاحب کی ناک شریف میں کھجلی شریف ہوتی ہی رہے گی۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے