بوٹ پالشئیے، مالشئیے اور اسٹیبلشمینٹ کا گھوڑا

پانامہ کا نام اب پاکستان میں بسنے والوں کو اس طرح یاد ہو گیا پے جیسے کہ بچوں کو پہلی کا پہاڑا. جسے دیکھئے پانامہ لیکس کو بنیاد بنا کر ایمانداری کے بھاشن دیتا دکھائی دیتا ہے .یا پھر قوم کی پسماندگی کا سبب بدعنوان جمہوری نمائیندوں کو ٹھہراتا نظر آتا ہےہے.ایسے ایسے لوگ جو چند سو روپے کی کرپشن کا موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے وہ بھی بلا تہمید ایمانداری پر بھاشن دیتے نظر آتے ہیں.نفسیات کی دنیا میں اسے احساس محرومی کہا جاتا ہے.ایسی احساس محرومی جو بدعنوانی یا کرپشن کے یکساں مواقع نہ ملنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اور بطور معاشرہ ہم اس کیفیت کا دہائیوں سے شکار ہیں.

اپنی اپنی بساط پر زندگی کے تمام شعبوں میں حسب توفیق اور حسب استطاعت بے ایمانی بدعنوانی کرنے کے بعد حکمرانوں کے ٹھاٹھ دیکھ کر جلتے رہنا ہم لوگوں کی پرانی عادت ہے. خیر پانامہ لیکس کے گرداب سے اپوزیشن کی ناعاقبت اندیشی کی بنا پر حکمران جماعت بہت آسانی سے نکل گئی. اور یوں حوالدار تجزیہ نگار اینکرز اور سیاستدانوں کو ایک دفعہ پھر خفت کا سامنا کرنا پڑا. اس خفت کو دور کرنے کیلئے ان بوٹ پالشیوں اور مالشیوں نے وزیر اعظم پاکستان اور چیف آف آرمی سٹاف کے درمیان ہونے والی ملاقات کے حوالے سے جس فضول قسم کی بےپرکیاں اڑائیں ان سے ان حضرات کی مایوسی اور ذہنی صدمے سے پہنچنے والی تکلیف کی شدت کا اچھی طرح سے اندازہ ہو گیا.

راحیل شریف اور نواز شریف کے درمیان ہونے والی اس ون ٹو ون میٹنگ کے حوالے سے حوالدار اینکرز نے یہ شور مچا دیا کہ راحیل شریف نے وزیر اعظم کو خبردار کیا ہے کہ پانامہ لیکس پر فوج میں تحفظات ہیں اور ان کی تحقیقتات ہر قیمت پر شفاف اور ممکن بنائی جائیں.یعنی دوسرے الفاظ میں الیکٹرانک میڈیا کے زریعے ایک بار پھر سول ملٹری تعلقات میں کشیدگی کی تصویر دکھائی گئی اور مارشل لا کی ایک اور جھوٹی نوید سنائی گئی.

فوج اور سول حکومت کے تعلقات ہرگز بھی اچھی نوعیت کے نہیں ہیں لیکن اس طرح کوئی بھی آرمی چیف وزیر اعظم کو دھمکی دینے کی کوشش نہیں کرتا اور نہ کر سکتا ہے.. ہونا تو یہ چاہییے تھا کہ آئی ایس پی آر سے اس قسم کی افواہوں کے بارے میں ایک مزمتی بیان آ جاتا تو تمام حوالدار اینکرز اور سیاستدانوں کے پیٹ میں اٹھنے والے مڑوڑوں کا علاج ممکن ہو سکتا تھا. خیر عاصم باجوہ صاحب مرضی کے مالک ہیں اور اگر وہ ایسی افواہوں کو اپنے ادارے کے حق میں سمجھتے ہیں تو پھر کیا بحث؟ لیکن پیمرا نامی ادارے کو ان حوالدار اینکرز کے حوالے سے افواہیں پھیلانے کے سلسلے کے خلاف ایکشن لیتے ہوئے کوئی ہلکا پھلکا جرمانہ ضرور عائد کرنا چائیے.

جو چیز یہ خود ساختہ دانشور سمجھ نہیں پا رہے وہ یہ ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کے دم پر ایک دو تہائی مینڈیٹ کے وزیراعظم کو آج کے دور میں گھر بھیجنا ناممکن ہے. اوپر سے تحریک انصاف جیسا لنگڑا گھوڑا جو ایسٹیبلیشمنٹ کی چھتری تلے پچھلے عام انتخابات میں محض 32 قومی اسمبلی کی نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوا اور جو ایسٹیبلیشمنٹ کے بھرپور ساتھ کے باوجود نہ تو دھرنوں میں عوام کو باہر نکال پایا اور نہ ہی پانامہ لیکس کے معاملے پر عوام کو متحرک کر پایا ایسے گھوڑے کی موجودگی میں تو مقابلے کا تصور بھی پیدا نہیں ہوتا. تو اب قرائن بتاتے ہیں کہ پنجاب کے انتخابی میدان میں گھوڑے اتارنے کے سکرپٹ کی ناکامی کے بعد ایسٹیبلیشمنٹ کو خود میدان میں آنا پڑے گا.

جس طریقے سے ایک منظم مہم میڈیا کے ذریعے چلا کر عوام کو یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ سیاستدان ناکام ہیں اور جمہوریت کے نام پر عوام کو لوٹتے ہیں اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا بے حد آسان ہے کہ آنے والے چند ماہ میں اہم پیش رفت متوقع ہے اور نواز شریف کو اب ان کا سیاسی تجربہ اور سمجھ بوجھ ایسٹیبلیشمنٹ کے متوقع وار سے بچا سکتی ہے.خیر یہ سیاسی تجزیہ پھر کسی روز سہی ،،ہمارا جو اصل مسئلہ ہے وہ ہماری سوچ ہے جس کے تحت ہم ہر وقت چیزوں میں برائیاں دیکھنے اور کیڑے نکالنے کے شوقین ہیں اور چاہتے ہیں کہ جادو کی چھڑی سے ہمارے سب مسائل کوئی پلک جھپکتے ہی ٹھیک کر دے. تعلیم صحت یا دیگر بنیادی سہولیات میں ہمیں اگر پچھلی چند دہائیوں کے مقابلے میں آج کچھ نہ کچھ بہتری نظر نہیں آتی تو قصور ہماری بینائی کا ہے جو پراپیگینڈے اور سیاسی تعصب کی گرد سے کچھ بھی اچھا دیکھنے کے قابل نہیِ رہی.وگرنہ آج سے دس بیس سال قبل کے سرکاری سکولوں اور ہسپتالوں کے معیار میں زمین آسمان کا فرق ہے اور آہستہ آہستہ مزید بہتری آ رہی ہے. وطن عزیز میں گزشتہ چند ماہ میں آٹو انڈسٹری نے ترقی کی ہے. سٹاک ایکسچینج تمام تر مصنوعی سیاسی بحرانوں اور حالیہ سیاسی بحران کے باوجود تاریخ کی بکند ترین سطح کو چھو رہا ہے .فارن ریزرو بلند ترین سطح پر ہیں.عالمی مالیاتی اداروں کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان مسلمان ملکوں میں اس وقت سب سے تیز رفتاری سے ترقی کر رہا ہے.

لیکن یہ تمام حقائق ہمیں جھوٹ کا پلندہ دکھائی دیتے ہیں کیونکہ ہم تھر کے بچوں یا پسماندہ علاقوں کے غریبوں کی دہائیاں دینے بیٹھ جاتے ہیں.خود اپنی جیب سے ایک روپیہ بھی ناداروں یا مستحقین کیلیئے نکالتے ہوئے ہمیں موت پڑتی ہے لیکن غریبوں کی فکر میں ہمہ وقت ہلکان ہوئے رہتے ہیں.ابھی اس کی تازہ مثال رمضان کے مہینے میں سامنے آ جائے گی جہاں سب سے پہلے اپنے نجی بنک اکاونٹس میں سے پیسے نکلوا لیئے جائیں گے تا کہ سرکار زکوة کی رقم نہ کاٹ سکے. پھر آٹا دال چینی مشروبات سے لیکر کپڑے تک رمضان کی آمد کی وجہ سے مزید مہنگے کر دئیے جائیں گے تا کہ ہم مزید منافع کما سکیں لیکن اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافے کا زمہ دار خود ہم حکومت کو ٹھہرائیں گے. اسی طرح زکوۃ کی رقم کی کٹوتی سے بچنے کیلئے بنک اکاونٹ سے رقم نکالنے کے بعد غریب مستحقین تک امداد نہ پہنچنے کی زمہ داری حکومت پر ڈال دیں گے اور خلفائے راشدین کے ادوار کی مثالیں پیش کرتے زرا برابر بھی شرم محسوس نہیں کریں گے کہ ہم خود جن بے ایمانیوں کا شکار ہیں کیا ان ادوار میں ان بے ایمانیوِں کو برداشت کر لیا جاتا.

میٹرو بس اورنج ٹرین موٹر وے سڑکوں اور انڈر پاسز کو گالیاں دیتے انہی سہولیات سے کمال ڈھٹائی سے مستفید بھی ہوں گے. ملک کی منفی امیج کا ذمہ دار سیاستدانوں کو قرار دیتے خود بیرون ممالک اپنی حرکتوں اور بے ایمانیوں سے ہر ممکن طریقے سے ملکی امیج کو تار تار کریں گے. ایک ایسا ملک جہاں آبادی کا بے بہا سمندر موجود ہو اور پاپولیشن کنٹرول کے کسی بھی طریقے کو مذہب سے متصادم سمجھتے ہوئے بچوں پر بچے پیدا کیئے جائے وہاں پھر بنیادی سہولیات سب تک پہنچنا ایک طویل اور صبر آزما مرحلے کی صورت میں ہوتا ہے. جو چیز جمہوریت مخالف بیانیے کے پاکستانی شہریوں کے سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ ٹیکس چور عوام کو کوئی بھی کیسے اور کتنا لوٹ سکتا ہے.اور بجٹ میں سے 80 روپے لینے والے کا تو آڈٹ تک نہیں لیکن 20 روپے لینے والوں دوارے دہائیاں اور کہرام مچا دیا جاتا ہے. ترقی پاکستان میں ہوئی ہے اور ہو رہی ہے اس کی رفتار سست ہے لیکن یہ دیکھنے کی بھی اشد ضرورت ہے کہ ایک ملک جو بجٹ کا زیادہ حصہ دفاع پر خرچ کرتا ہے وہ غربت کو کیسے فورا مٹا سکتا ہے. غوری میزائل یا ایٹم بم غریب کے گھر کے چولہے نہیں جلاتے البتہ میٹرو بس پر ایک غریب یا سفید پوش بیس روپے میں سفر کر کے نہ صرف اضافی کرایہ بچا لیتا ہے بلکہ باعزت سفر بھی کر لیتا ہے. ترقی کیلئے سب سے پہلے ضروری ہے کہ ہم اس وطن کو اپنا سمجھ کر پہلے اپنے اپنے لالچ اور حرص سے نجات حاصل کریں.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے