وہ ایک لہو رنگ دن

12 مئی 2007 بھی ایک ایسا ہی خون آلود دن ھے جسے کم از کم کراچی والے فراموش نہیں کرسکیں گے ۔۔۔۔ لگ بھگ ایک عشرہ قبل اسی دن شہر کی سڑکوں پہ خون کی ھولی کھیلی گئی درندگی کی عجب مناظر تھے جسے اس روز رپورٹ کرتے ہوئے میں خود سے شرمندگی محسوس کر رہا تھا ۔۔۔۔۔

12 مئی کو ایم کیو ایم کی طاقت وحشت میں بدلی ، کینٹ ایریا میں واقع شارع فیصل اور اطراف کی سڑکوں کو 11 مئی کی رات کو ہی اسوقت کے مشیر داخلہ اور حالیہ مئیر کراچی وسیم اختر کے احکامات پر روکاوٹیں کھڑی کرکے بند کردیا گیا ۔۔۔

اس روز کراچی میں ایم کیو ایم کا بھی جلسہ تھا لیکن چیف جسٹس کے روٹ اور متحدہ کے جلسہ کی جگہ یکسر مختلف تھی ، لیکن کیا کیجئے کہ کمانڈو مشرف کی انا غرور اور ذاتی جذبات کی تسکین کے لئیے ضروری تھا کہ چیف جسٹس سمیت پیپلزپارٹی مسلم لیگ جماعت اسلامی اور عوامی نیشنل پارٹی کو ذلیل کیا جائے ۔۔۔۔

یہی وجہ تھی کہ جب 12 مئی کا تپتا سورج غروب ہوا تو افق پر اس خون کی سرخی نمایاں تھی جو دن بھر کراچی کی سڑکوں پہ ناحق بہتا رھا ، اس روز 50 سے زائد انسان کھیت رھے تھے ۔۔۔۔۔۔
عین اسی شام اسلام آباد میں کمانڈو نے بھی جلسہ کیا اور اپنے دونوں بازو قوم کو دکھاتے ہوئے کہا کہ ” کراچی میں عوام کی طاقت کا مظاھرہ دیکھ لیا ” ۔۔۔۔

12 مئی 2007 وہ دن تھا جب بے پناہ عروج رکھنے والی ایم کیو ایم اور جنرل مشرف کے زوال کا لازوال سفر شروع ہوا ، بطاھر تو سب کچھ متحدہ اور مشرف کے ہاتھ میں تھا لیکن اس روز کے قتل عام نے دونوں کے چہرے پہ اتنے بدنما داغ لگائے کہ انہیں ابھی تک دھویا نہیں جاسکا ۔۔۔۔
اس معاملے کی تحقیقات کے لئیے اسوقت لارجر بینچ تشکیل دیا گیا اسکے نتیجے میں کسی کو سزا تو نہیں سنائی گئی لیکن یہ سوال ضرور اٹھا کہ اگر کوئی گروپ اٹھ کر ائیر پورٹ ہائی کورٹ و شارع فیصل جیسی حساس تنصیبات والے علاقے کو یرغمال بناسکتا ھے تو ایسے میں ہماری کیا سیکیورٹی ھوگی ؟

اس سانحے کے بعد پہلی بار میڈیا نے ایم کیو ایم کیخلاف لب کشائی کی جرات کی اور ان دنوں ایم کیو ایم کی مقامی قیادت اپنے اس بھونڈے اقدام کی صفائیاں دیتی پھر رہی تھی ۔۔۔۔
کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم دراصل ایوب خان اور کوٹہ سسٹم جیسے غیر منصفانہ قانون کے ردعمل میں بنی لیکن گزرے ماہ و سال میں کراچی میں 25 ہزار پاکستانی رزق خاک ہوئے تعلیمی تہذیبی طبی سفر تنزلی کے گڑھے میں جا پہنچا کوٹہ سسٹم کو خود ایم کیو ایم نے تحفظ دیا ۔۔۔ نئی نسل خوف کے سائے پل کر جوان ہوئی اور کئی ایسے تحائف ملے جس نے اس شہر کے مجموعی مزاج کو بگاڑ کر رکھ دیا ھے ۔۔

اس ھولناک دن کے بعد شہر میں نسلی و لسانی فسادات عروج پہ پہنچے مہاجر پشتون اور بلوچ مارے گئے اور بے دریغ مارے گئے یہ سلسلہ درازتر ہوتا چلا گیا بستیاں تو تقسیم تھیں ہی اسکے بعد اسپتال اور قبرستان بھی منقسم ہوگئے ، یقینی طور پہ اسکا سارا کریڈیٹ قانون نافذ کرنے والے اداروں ، سرکار ایم کیو ایم پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے سر جاتا ھے جنہوں نے اس آگ میں لوگوں کو جھلسایا زمینوں پہ قبضے کئیے اور بھتہ خوری و اغواء کی نت نئی اقسام متعارف کرائیں ۔۔۔۔۔

حالیہ عرصے کے آپریشن کے بعد معاملات بتدریج درست سمت میں جارھے ہیں لیکن صرف عسکریت کے خلاف آپریشن کافی نہیں ہوتا سماجی سطح پہ اسکے اثرات نظر آنا بے حد ضروری ہیں ۔۔۔۔
12 مئی کے سانحے سے سب سے زیادہ اگر کسی کو سیکھنے کی ضرورت ھے تو وہ خود متحدہ ھے ، ایم کیو ایم کی قیادت کو سمجھنا ۃوگا کہ محض طاقت کے استعمال سے قلوب و اذھان فتح نہیں کئِے جاسکتے ۔۔۔۔۔۔
رھے وہ معصوم جو 12 مئی کو زندہ گھروں سے نکلنے کے بعد لاشوں کی صورت میں لوٹے تو ان سے ہم سب معافی ہی مانگ سکتے ہیں کیونکہ اس دیس میں کب مکمل انصاف ہوا ۔۔۔۔۔۔ ؟؟؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے