ڈاکٹر سردار شاہ زرین خان۔۔۔۔۔۔ کچھ یادیں ، کچھ باتیں

یہ 2001ء کی بات ہے جب جہانزیب کالج سیدوشریف سے گریجویشن کے بعد جامعہ پشاور میں داخلہ کا ارادہ کیا لیکن شاید قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا، اس وقت توداخلہ نہ ملا البتہ کچھ کرنے کا موقع ضرور ملااور یہی وہ دور تھا جس نے میری صلاحیتوں کو جلا بخشی،میڈیا کی دنیا میں جنون کی حد تک سرگرم ہوگیا، ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کیا،یہاں تک کہ فارغ وقت میں اپنے ایک دوست کے ساتھ نجی گرام ان کے سکول میں پڑھایابھی، چونکہ نیا ادارہ تھا اس لئے وقت کی کوئی فکر نہیں تھی اور بسااوقات دیر سے گھر واپس آیاکرتے تھے، ان دنوں وہاں ٹرانسپورٹ کا بھی بہت بڑا مسئلہ تھااس لئے گاڑی کے انتظار میں گھنٹوں بیٹھنا پڑتا تھا، سٹاپ پر چند ایک دکانداروں سے علیک سلیک بھی ہوئی اور پھر ان ہی کی دکانوں میں بیٹھ کر گاڑی کا انتظار کرنے لگے،ایک دن ظہر کی نماز کے بعد ایک دکان پر بیٹھ کر گاڑی کی راہ تک رہے تھے کہ سامنے دیوار پر لگے ایک بلیو اینڈ وائٹ رنگ کے انتخابی پوسٹر پر لگی تصویرنے توجہ اپنی طرف کچھ اس طرح مبذول کی کہ لب بیان اور قلم تحریر سے قاصرہے،دکاندار سے دریافت کیا۔
اتنے بڑے انتخابی معرکہ میں یہ نوجوان کیا کررہاہے ؟
انھوں نے جواب دیا۔۔۔
بڑی ہر دل عزیز شخصیت ہیں، ہر ایک کے کام آتے ہیں،کراچی میں پلابڑھا ہے،ڈاکٹر ہے،عوام نے الیکشن سے پہلے ہی انھیں منتخب کرلیا ہے،خود الیکشن نہیں لڑنا چاہتے تھے مگر برادری نے مجبور کردیااور تم دیکھنا یہ کامیاب ہوکر رہے گا۔
اور بے شک وہ کامیاب ہوگیا ۔
انتخاب کے بعد سوات تحصیل کونسل ہال میں اس وقت کے نائب ناظم یونین کونسل غالیگے ڈاکٹرسردارشاہ زرین خان آف ڈب سر ناوگئی سے پہلی ملاقات ہوئی تو کہہ اٹھے
’’ آپ سے غائبانہ ملاقات آپ کے پوسٹر کے ذریعے بہت پہلے ہی ہوچکی ہے‘‘۔
انھوں نے مسکراکر پرتپاک خیرمقدم کیااور آخر دم تک دوستی نبھائی رکھی، یہ اور بات کہ ذاتی مصروفیات اور دیگر مسائل ومشکلات کے باعث ان سے قدرے کم رابطہ رہا لیکن ہر بار انھوں نے ہی رابطہ کیا اور دلاسہ دیتے رہے، اس کے علاوہ انھوں نے ہر موڑ پر بھرپور حوصلہ افزائی بھی کی ، یہاں تک کہ میں جس بھی اخبار میں رہا انھوں نے وہی اخباراپنی کلینک میں لگوایااور دوست احباب کو بھی اس کی تلقین کی،دوستوں کی محافل میں بھی اس ناچیز کو بہت عمدہ طریقے سے متعارف کروایا،اپنے دیگر ساتھیوں اوررشتہ داروں کی حوصلہ افزائی میں بھی وہ پیش پیش رہے، یہاں میں خاص طو رپر کرن خان کا حوالہ دینا چاہوں گا جب انھوں نے اپنے پہلے گانے کی مری میں عکس بندی کرائی تو ڈاکٹر صاحب کو ان کی یہ کاوش بہت پسند آئی اور انھوں نے اس کی تشہیر کے لئے بھرپور جدوجہد کی اور یہ ڈاکٹر صاحب ہی تھے جن کے ذریعے میں اپنے کلاس فیلو ایوب خان( کرن خان) سے مدتوں بعد ملا،دونوں چونکہ رشتہ دار تھے اور ایک دوسرے کو پیار سے ماما ، خورائے کہاکرتے تھے اس لئے مجھے ان کے ساتھ رہنا بہت بہایااور ان کے جانے کے بعد یوں لگ رہا ہے جیسے چار سوں اندھیرا چھاجائے اور کوئی اپنا ہی نہ رہے۔۔۔
ڈاکٹر صاحب کے بارے میں لکھنا اور ان کی خوبیوں کااحاطہ کرنابلاشبہ سورج کو آئینہ دکھانے کے مترادف ہے لیکن ایک شفیق دوست کے ناطے ان کے بارے میں چند سطور لکھنے کی جسارت کرتا ہوں لیکن افسوس اس بات کا کہ وہ اب ہم میں نہیں رہے۔۔۔
؂ وہ جو ہم میں نہ رہے خاک میں پنہاں ہوکر
ہائے کیا صورتیں تھیں تاق نسیاں ہوگئیں
وہ ایک انمول ہیرا اور بے مثال انسان تھیں ، ان کے بارے میں صرف یہی کہنا چاہوں گا کہ
؂ سب کہاں ۔۔کچھ لالہ وگل میں نمایاں ہوگئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں
ان کی رحلت فرمانے کی اطلاع حبیب ماما نے فون پردی تو جیسے پیروں تلے سے زمیں نکل گئی کیونکہ روئے زمین پر اس ناچیز کے صرف وہ ہی ایک ایسے دوست اور ہمدرد تھے جو اقبال کے اس شعر پر پورا اترتے تھے کہ
؂ آرہی ہے۔۔۔۔ چاہ یوسف سے صدا
دوست یا ں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت
ڈاکٹر صاحب بلاشبہ لاجواب انسان تھے، انسانیت ان میں کھوٹ کھوٹ کر بھری ہوئی تھی،ہر دم ہنس مکھ، ہشاش بشاش،بے ضرر، ٹھنڈے دل ودماغ کے مالک، صلح جو،چہرہ تروتازہ جیسے باد بہاراں،انتہائی درجہ کے رحم دل و شفیق،ہمیشہ لوگوں کے کام آتے تھے،ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ مضبوط سیاسی بیک گراؤنڈ بھی رکھتے تھے، خاندانی لحاظ سے بھی اپنی مثال آپ تھے، سیاسی ولسانی وابستگیوں سے بالاتر ہر ایک کے کام آتے تھے، یہی وجہ تھی کہ سیاست کے ساتھ ساتھ قومی جرگہ اور دیگر اصلاحی وفلاحی سرگرمیوں میں بھی پیش پیش رہے،ان کے حلقہ احباب میں مختلف ر نگ و نسل اور مذہب کے لوگ شامل تھے،ان کے بہترین احباب میں ڈاکٹر رب نوازخان آف شموزئی سوات، رفیع الملک کامران خان لالا جی، پروفیسرڈاکٹر حکیم صاحبزادہ خان اورسید اقبال شاہ ایڈووکیٹ آف مدین سرفہرست ہیں، اللہ ان تمام احباب کو زندگی دے اور انھیں یہ عظیم صدمہ برداشت کرنے کی توفیق عطاء فرمائے،ڈاکٹرسردارشاہ زرین صاحب ہر ایک سے خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آتے ، وسیع حلقہ احباب رکھتے تھے، جو کوئی ان سے ایک بار ملتا ان کا گرویدہ ہوجاتا،انھوں نے صرف چالیس سال کی عمر پائی لیکن ٹیپو سلطان کے بقول
’’ شیر کی ایک روزہ زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘
ان کی حیات کے شب وروز بھی جہد مسلسل سے عبارت ہیں، اس مختصر سی زندگی میں انھوں نے بہت سے نشیب وفراز دیکھے، بہت سے غم والم کا بھی انھیں سامنا کرنا پڑا، والدین کے انتقال،بھائیوں کی رحلت اور یہاں تک کہ اپنے جگری دوست اور کزن وزیر زادہ کی شہادت کا صدمہ بھی انھیں برداشت کرنا پڑا لیکن ان تمام صدمات کے باوجود وہ ہر حال میں باری تعالیٰ کے شکرگزار رہے اور رحلت کے وقت بھی ایسے پائے گئے جیساکہ کوئی گہری نیند سورہاہو۔۔۔
؂ اپنے لئے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں
ہے زندگی کا مقصد۔۔۔۔ اوروں کے کام آنا
وہ اس شعر کے زندہ وجاوید مثال تھے۔۔۔
لاکھ ناراضگی سہی، انھوں نے کبھی اپنی ناراضگی کا اظہار نہیں کیااورہرایک کے کام آئے،میرے جن جن دوستوں اور رشتہ داروں سے ان کی ملاقات ہوئی سب نے انھیں مثالی انسان قرار دیا،اگریوں کہاجائے کہ وہ میرے خاندان کاایک فردتھے توبے جانہ ہوگا،انھوں نے ہمیشہ مجھے دلاسہ دیااور میری رہنمائی کی،زندگی کے ہر موڑ پر جب بھی ان کی ضرورت پڑی انھوں نے کبھی انکار نہیں کیا،ان کی رہائش گاہ اور بریکو ٹ میڈیکل سنٹر سمیت ناوگئی میں ان کی کلینک پر بیسیوں بار آنا ہوا لیکن ہر بار انھیں یوں پایا جیسا یہ ان سے پہلی ملاقات ہو،کبھی ان کی مہمان نوازی میں کوئی فرق نہیں آیا،ان کو جس کام کا بھی کہا انھوں نے کبھی ’’نا ‘‘ نہیں کیا،چاہے وہ کام ان کے بس میں تھا یا نہ تھا۔ وہ اپنے آخری سانس تک مخلوق خدا کی خدمت کرتے رہے یہی وجہ تھی کہ ہفتہ 7مئی 2016ء کو جب انھیں دل کا جان لیوا دورہ پڑا اس وقت بھی وہ اپنی کلینک واقع بریکوٹ میڈیکل سنٹر میں بیٹھے مریضوں کا معائنہ کررہے تھے، ان کا خدا کی ذات پر غیرمتزلزل اعتماد تھا، یہی وجہ تھی کہ انھوں نے جس کام کو بھی ہاتھ ڈالا خالق کائنات نے ان کا بھرپور ساتھ دیااور وہ ہر میدان میں کامیاب ہوتے گئے،کراچی سے ہومیوڈاکٹریٹ کی تعلیم حاصل کی،گاؤں واپس آکر گراسی گراؤنڈ مینگورہ کے سامنے سٹی ہومیو ہسپتال کی داغ بیل ڈالی اور اپنے ساتھی ڈاکٹروں کے تعاون سے اسے کامیابی کے ساتھ چلایا،وہ ہر ایک کے دلداہ تھے،سیاسی میدان میں پیش پیش تو تھے ہی، اپنی گوجر برادری اور پاکستان ہومیو کونسل کے بھی سرگرم رکن اور کئی بار عہدیدار بھی رہے اور ہر جگہ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا،نائب ناظم یونین کونسل غالیگے منتخب ہوئے تو اپنی بساط سے بڑھ کر اپنے حلقہ نیابت کے عوام کی خدمت کی اور راقم اس بات کا شاہد ہے کہ ہر موڑ پر اپنے حلقہ کے عوام کے حقوق کے لئے آواز بلند کرتے رہے،قومی وطن پارٹی کے دیرینہ کارکن اور آفتاب احمد خان شیرپاؤ کے بااعتماد ساتھی تھے،کٹھن حالات میں بھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑا،قومی جرگہ کے پلیٹ فارم سے نمایاں خدمات انجام دیں ، قیام امن میں پیش پیش رہے، اپنی ذات کی پرواہ کئے بغیر ہومیو پیتھک ڈاکٹرز کے حقوق کے لئے لڑے ، یہ انہی کی جدوجہد کا نتیجہ تھا کہ حکومتی سطح پر نہ صرف ہومیوڈاکٹرز کو شناخت ملی بل کہ سرکاری ہسپتالوں میں ان کی باقاعدہ تعیناتی بھی عمل میں لائی گئی اوران کی کوششوں کی بدولت بے شمار ہومیوڈاکٹرز کوسرکاری ہسپتالوں میں تعینات کردیاگیا، یہاں یہ بتاتا چلوں کہ دوستوں کے بار بار اصرار کے باوجود سرکاری ملازمت صرف اس لئے اختیار نہیں کی کہ’’ کل کلاں کو لوگ یہ سمجھیں گے کہ ڈاکٹر شاہ زرین نے اپنی ذات کے لئے جدوجہد کی‘‘۔ گوجر قوم کے حقوق کے لئے بھی آخر دم تک لڑے اور اس کے لئے ملک بھر میں اپنی برادری کو متحد کیا،یہ انہی کی قربانیوں کا ثمر تھا کہ آج گوجر برادری ملک بھر میں ایک الگ اور منفرد مقام رکھتی ہے،سوات آپریشن کے دوران بھی انھوں نے ہمت نہیں ہاری اور اپنے ہی ملک میں بے گھر ہونے کے باوجوداپنے علاقہ کے عوام کے دکھ درد میں شریک رہے اور کسی بھی مقام پر کسی بھی طرح کی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔
؂ اپنے لئے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں
ہے زندگی کا مقصد۔۔۔۔ اوروں کے کام آنا
اپنی ہمہ جہت شخصیت کے طفیل وہ ہر ایک کی آنکھ کا تارہ تھے،سیاسی وسماجی میدان میں کوئی ان کا ثانی نہیں تھا،عوام کی خوشی و غم میں وہ اپنی شرکت یقینی بناتے تھے اورہر وقت عوام سے قریبی رابطے میں رہتے تھے، یہی وجہ ہے کہ آج وہ ہم میں نہیں لیکن پھر بھی وہ ہمارے دلوں میں زندہ ہیں اور انشاء اللہ زندہ وجاوید رہیں گے،ڈاکٹر صاحب جئے تو بھی شان سے اور ہمیں چھوڑ کر چلے گئے تو بھی شان سے ۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی بھر ہر ایک کی آنکھوں کا تارا اور محبوب رہے اور انشاء اللہ ان کی یادیں ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گی۔
ڈاکٹرسردار شاہ زرین خان اب چونکہ ہم میں نہیں رہے ان کے غم میں ان کے اہل خانہ اور بچوں سمیت ہر آنکھ آشکبار ہے،ان کے چاہنے والے غم سے نڈھال ہیں اور ان کے اہل خانہ کے غم میں برابر کے شریک ہیں ،جس طرح ایک عالم کی موت پورے عالم کی موت قرار دی جاتی ہے اسی طرح ڈاکٹرسردار شاہ زرین خان کا انتقال بھی ایک المناک سانحہ ہے۔
؂ وہ لوگ ہم نے ایک ہی لمحے میں۔۔ کھو دیئے
ڈھونڈا تھا آسماں نے جنھیں خاک چھان کے
باری تعالیٰ ان کے درجات بلند اور سوگواروں کو یہ عظیم صدمہ برداشت کرنے کی توفیق عطاء فرمائے، آمین۔
بقول شاعر
؂ ہمارے بعد اندھیرا رہے گا محفل میں
بہت چراغ جلاؤگے روشنی کے لئے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے