جمہوریت میں جواب دینا پڑتا ہے

انسان کی نفسیات کبھی جامد نہیں ہوئی ، ہر عروج زوال پراگندگی اور مایوسی، رجابت اور بغاوت کی کیفیات سے گزرتی رہتی ہیں۔ محنت کش طبقے کی پسماندہ پرتوں پر حکمرانوں کے مسلط کردہ ٹیکس خاص طورپر اثرانداز ہوتے ہیں۔ حکمران طبقے کی چالبازیوں اور اس کے مالشیوں و کاسہ لیسوں دانشوروں کی ذہنی بیماریوں نے عوام کو بددل اور لاغر کر رکھا ہے۔

یہ کاسہ لیس قسم کے دانشور انہیں صلا ح الدین ایوبی اور قائد اعظم ثانی ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ لغت میں الفاظ نہیں کہ ان چھچھوروں کے کردار کا احاطہ کیا جا سکے۔ بھکاری تو زندہ رہنے کیلئے ہاتھ پھیلاتا ہے یہ لوگ اپنی قوم کو پست اور غلام بنانے کی قیمت پر خوشحال زندگی کی آرزو کرتے ہیں۔ سیاسی لیڈر ، افواج اور اشرافیہ ملک کی حفاظت نہیں کیا کرتے ملک کا پرچم باشعور عوام بلند کیا کرتے ہیں جب تک آگے بڑھ کر ان کی بساط ہم الٹ نہیں دیتے بے کسی اور بے بسی ہم پر مسلط رہے گی۔

شہنشاہ پاکستان میاں محمد نوازشریف کی طرف سے یہ بیان سامنے آیا ہے کہ اپوزیشن کے سوالوں کے جواب دینے کا پابند نہیں ہوں یہ بات کہتے ہوئے وہ کیوں بھول گئے کہ جس جمہوریت کا وہ راگ الاپ رہے ہیں اس میں تو جوابدہ ہونا پڑتا ہے ملک و قوم کی لوٹی ہوئی دولت کی پائی پائی کا حساب دینا پڑتا ہے۔ شہنشاہیت میں تو جواب نہیں دیا جاتا۔ میاں نواز شریف کی سیاسی پرورش جنرل ضیاء الحق نے کی ، خود ساختہ جلا وطنی اور ٹھوکریں کھانے کے بعد بھی ابھی انہوں نے کچھ نہیں سیکھا۔ اگر میاں برادران کی زندگی کا بغور مطالعہ کریں تو ان پر ضیائی آمریت کی چھاپ نظر آئے گی۔

جنرل ضیاء الحق کی شخصیت کے دو پہلو تھے الطاف حسین قریش ینے اپنی کتاب ’’ملاقاتیں کیا کیا‘‘ میں لکھتے ہیں کہ جنرل ضیاء الحق کو جب علماء و فضلاء کے درمیان بیٹھے اور حرم کعبہ میں ان کی خشوع و خضوع والی کیفیات دیکھتا تو ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا کہ انہوں نے اس قدر سنگدلی سے بھٹو کو پھانسی پر کیسے لگایا۔ جب گہرائی سے مطالعہ کیا تو ان کی شخصیت دو حصوں میں تقسیم تھی۔ شخصیت کا ایک پہلو یہ تھا جو اقتدار کے تحفظ اور استحکام سے تعلق رکھتا تھا۔ اقتدار بچانے کی خاطر انہوں نے بھٹو کو دار پر لٹکایا اور پیپلزپارٹی کو ختم کرنے کیلئے ظالمانہ حربے استعمال کیے ان کی شخصیت کا دوسرا پہلو معاشرے میں اسلامی پہلو کے فروغ سے متعلق تھا۔ اس ضمن میں انہوں نے کوشش بھی کی لیکن بارآور نہ ہو سکی۔

ماشاء اللہ شریف خاندان کا شمار بھی ملک کے،متقی و پرہیزگار خاندانوں میں ہوتا ہے بقول شخصے ان کے خاندان کے تمام افراد باوضو رہتے ہیں اور شنید میں بھی آیا ہے کہ جب کابینہ کا اجلاس ہوتا ہے تو کابینہ کے ممبر باوضو ہو کر میاں نواز شریف کی خوشامد کرتے ہیں شہنشاہ پاکستان تو باقاعدگی سے رمضان المبارک کا آخری عشرہ سعودی عرب گزارتے ہیں۔ انہوں نے باوضو ہو کر ملک و قوم کا کھلواڑ کیا، متقی و پرہیزگاری کی کا لبادہ اوڑھ کر کھربوں کی لوٹ کھسوٹ کی ۔ آف شور کمپنیاں بنائیں اپوزیشن پوچھتی ہے تو جواب ملتا ہے کہ ہم آپ کے سوالوں کے جواب دینے کے پابند نہیں ، عر صہ قبل ڈی ایم جی افسران کا ایک گروپ کورس کے سلسلے میں سوئٹزرلینڈ گیا کورس ختم ہوا۔ کورس کے اختتام پر تمام شرکاء کی ایک سوالاً جواباً نشت ہوتی ہے ، پاکستان سے شریک ایک افسر نے سوال کیا کہ اخبار میں یہ خبر تھی کہ ایک وزیر کو اس لئے برطرف کر دیا گیا کہ اس نے ساتھی وزیر کو جنسی ہراساں کیا۔ حالانکہ آپ کے ملک میں عام شہری کو اس معاملے پر سزا نہیں دی جاتی۔ جواب میں اس وزیر کو بتایا گیا کہ جن لوگوں کے ہاتھوں میں ملک و قوم کی باگ ڈور ہوتی ہے اگر ان سے کو ئی اس طرح کا جرم سر زد ہو جائے تو ان کا کڑا احتساب کیا جاتا ہے ان کے پاس راز ہوتے ہیں وہ قوم کو رہنماء ہوتے ہیں اگر وہی کرپٹ ہونگے تو ہمارا معاشرہ دھڑام سے نیچے آ گرے گا۔

آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے وزیراعظم نواز شریف سے ون آف ون ملاقات کی تو پانامہ لیکس زیربحث آیا۔ سپہ سالار نے یہ پیغام دیا کہ پانامہ لیکس کا معاملہ کسی کنارے لگایا جایا۔ واقفان حال یہ بھی بتاتے ہیں کہ سپہ سالار نے اپنے اورکور کمانڈروں کے اثاثے قوم کے سامنے پیش کرنے کا عندیہ دیا ہے، جب یہ عندیہ میاں صاحب کو دیا گیا تو میاں صاحب کے چہرے کی ہوائیاں اڑ گئیں، اچھی بات ہے کہ اثاثے قوم کے سامنے پیش کیے جائیں۔ قوم کے نمائندے اقتدار میں آنے سے پہلے کنگلے ہوتے ہیں اور جب اقتدار میں آتے ہیں تو اربوں پتی بن جاتے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ ان پاس کون سا پارس کا پتھر آ جاتا ہے کہ یہ مٹی کو بھی سونا بنا دیتے ہیں۔ اب حکمرانوں کی چالبازیاں و مکروفریبیاں آخری ہچکولے لے رہی ہیں۔ میاں نواز شریف نے عقلمندی کا مظاہرہ نہ کیا اور اپوزیشن کے سوالوں کے جواب پارلیمنٹ میں نہ دیئے تو آئی سی یو وارڈ میں وینٹی لیٹر پر سانس لیتا ہوا یہ اقتدار اس وقت دم توڑ دے گا جب پلگ سے ونٹی لیٹر کی تار باہر نکال دی جائے گی۔

کیا ہمارے ملک کے قانون میں اتنی جرات نہیں کہ وہ ان دندناتے ہوئے لیڈروں پر ہاتھ نہیں ڈالتا۔ یہ جو چند ہزار لوگ اپنے شہریوں کے گلے کاٹنے اور پیٹ پھاڑنے پر تلے ہوئے ہیں اگر ان کو روکا نہ گیا تو آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ہمارے ملک میں گلاب و مو تیا کے پھول کھلیں گے نہیں اللہ کا عذاب نازل ہو گا اور جب اللہ کا عذاب نازل ہوتا ہے تو بروں کے ساتھ ساتھ نیکو کار بھی رگڑے میں آ جاتے ہیں۔ اس وقت کے آنے سے پہلے اپنے آپ کو احتساب کیلئے پیش کر دو اور لوٹی ہوئی دولت ملک کے خزانوں میں واپس لاؤ تاکہ بھوکھی ننگی قوم بھی ظفر مند ہو ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے