تعلیمی اصلاحات

میرے دوست نے قہقہہ لگاتے ہوئے بڑا زبردست جواب دیا۔۔

"میاں خاک اصلاحات، کیا تمام وزراء کے بچے بھی اب سرکاری سکولوں میں پڑھیں گے؟کیا تمام سیکرٹریوں پر لازم ہوگا کہ وہ اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں میں داخل کروائیں؟کیا حکومت کوئی قانون لائے گی کہ کوئی بھی سرکاری ملازم اپنے بچوں کو کسی نجی سسٹم میں تعلیم نہیں دلوائے گا بلکہ سرکاری سکولوں کو” زینت بخشے "گا؟

میں ایک دم خاموش ہوا لیکن اس بات پر سوچ میں پڑگیا کہ یہ کیسے ممکن ہے۔۔ایکدم ذہن میں خیال آیا کہ اگر ایسا ہوجائے کہ تمام وزراء کے بچے سرکاری سکولوں میں جائیں،سیکرٹریز کے بچے بھی سرکاری سکول کے بنچوں پر بیٹھیں اور کسی بھی سرکاری افسر کے بچے پرائیویٹ سکولوں میں نہ جاسکیں تو حقیقت میں انقلاب رونما ہوجائے،

حکومت اس حوالے سے پارلیمنٹ میں بل لائے اور قانون پاس کروائے کہ جو بھی قومی خزانے سے "فائدہ”اٹھاتا ہے چاہے وہ تنخواہ کی مد میں ہی کیوں نہ ہو ،سرکاری سکولوں میں بچوں کو تعلیم دلوائے،

دوست نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ سب سے بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ جب وزراء کے بچے ان سکولوں میں پڑھیں گے تو کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی گھوسٹ اساتذہ کی شکایت سامنے آئے کیونکہ بچہ گھر میں جا کر وزیر صاحب کو ضروربتائے گا کہ فلاں ٹیچر کتنے دنوں سے غائب ہے،کمپیوٹر لیب کی جو سہولت سکول میں فراہم کی گئی تھی وہ کس حد تک کارآمد ہورہی ہے،اگر سکول کی بس خراب ہو گی تو شام کو سیکرٹری صاحب کا چشم چراغ ضروربتائے گا،

اگر سکول کے واش رومز خراب ہوئے،پینے کا صاف پانی نہ آرہا ہو تو کیسے ممکن ہے کہ ڈائریکٹر صاحب کا نورچشم اپنے والد محترم کو شکایت نہیں لگائے گا،
اگر کلاس رومز میں آکر اساتذہ مناسب وقت نہ دے رہے ہوئے تو سرکاری افسران کے بچے ضرور اپنے گھروں میں ذکر کریں گے۔۔

میں بڑے غور سے دوست کے چہرے کو دیکھا جوغصے سے لال پیلاہورہا تھا،پانی کا گلاس میں نے سامنے رکھا جو ایک سانس میں ختم کر دیا

یہ بحث اس معاملے پر شروع ہوئی کہ کچھ دنوں سے وفاقی دارالحکومت میں تعلیمی اصلاحات کا شورچل رہا ہے،وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اسلام آباد کے ایک دیہی علاقے میں ایک "پسماندہ”قسم کے سکول کو ایسا خوبصورت روپ دیا کہ وہ کسی بھی سیکٹر کے بہترین ماڈل کالجز سے مقابلہ کر رہا تھا،420تعلیمی اداروں پر حکومت نے پانچ ارب خرچ کرنے کا اعلان کر دیا،دوسوبسیں سکولوں کو دی جانی ہیں،دوست نے پانی ختم کرکے بات شروع کی کہ کیسے ممکن ہے کہ یہ سب چیزیں دیرپا ثابت ہوں گی،

میں نے بات کاٹ کر کہا کہ یار دیکھو’ ن لیگ کو یہ خیال تو آیا کہ سکولوں کی حالت زار بہتر کی جائے،وزیراعظم کی صاحب ذادی’ ‘خاص”توجہ دے رہی ہیں،لیکن اس بات سے اتفاق ضرور ہے کہ یہ اصلاحات کارآمد ثابت تبھی ہوسکتی ہیں جب ان کا مسلسل چیک اینڈ بیلنس رکھا جائے،میاں صاحب کی ٹیم کو یہ داد ضرور دینا چاہیے کہ انہوں نے ایسا کام شروع کیا ،بحث تو ختم ہوگئی لیکن میں اب تک یہی سوچ رہا ہوں کہ حکومت تعلیمی اصلاحات میں یہ نقطہ بھی شامل کردے کہ آئندہ تمام سرکاری ملازم اپنے بچوں کو حکومت کے سکولوں میں ہی داخل کروائے،اگر کسی سیکرٹری کا بچہ کسی پرائیویٹ سکول میں پڑھے گا تو اس کے خلاف محکمانہ کارروائی ہوگی ،وزراء پر بھی اخلاقی پابندی عائد کریں تو یہ اصلاحات حقیقی معنوں میں لاگو ہونا شروع ہوں گی ورنہ ان تعلیمی اصلاحات کا بھی وہی حال ہوگا جو سستے تندوروں کا ہوا تھا،۔۔۔۔۔!!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے