مرد میدان

تینوں لڑکیاں کم عمر اور قدرے خوبصورت تھیں خوش نمائی کو بڑھانے کے لیے گھٹیا میک اپ کا سہارہ بھی لیا گیا تھا جو کہ ان کی عمر کے مطابق کچھ زیادہ تھا۔ سرخی لگے ہونٹوں پر جذبات سے عاری مصنوعی مسکراہٹ سجی تھی ۔وہ صوفے کے سامنے سیدھی لائن میں کھڑی تھیں اور خود کو پسند کروانے کا خاموش جتن کر رہی تھیں یہ ایسے ہی تھا جیسے ملبوسات کی بوتیک میں نمائشی خوش لباس بے روح مجسمے دل اور زبان تو نہیں رکھتے لیکن دکاندار کی دی ہوئی خوشنما وضع قطع کے ذریعے چن لیے جانے کی خواہش کا اظہار ضرور کر رہے ہوتے ہیں۔ انکے قریب ہی کھڑا ایک چوڑ ا چکلا صحت مندی کی حدوں کو پھلانگتا ہوا یک مسٹنڈا سا مرد اپنی گھنی موچھوں کو تاؤ دے رہا تھا اسکی آنکھوں کی چمک عجیب سی تھی۔ شاید یہ اس چم چم کرتی ہنڈا کار کاڈرائیور تھا جن میں بیٹھ کر یہ تینوں یہاں اس گھر میں وارد ہوئی تھیں۔ ان تینوں کے سامنے قیمتی صوفوں پر بیٹھے چاروں دوست ہاتھوں میں مشروب مغرب کے ادھ پئے گلاس تھامے لڑکیوں کو ایسی نظروں سے دیکھ رہے تھے جیسے بڑی عید کے موقع پر قربانی کا خوبصورت اور صحت مند جانور پسند کر رہے ہوں ۔۔ ارسلان بھی سائیڈ پر رکھے ایک صوفے پر براجمان تھا

ارسلان کی ان دوستوں سے یہ دوسری ملاقات تھی۔ایک مرتبہ ایک قریبی دوست اکرم کی کال اسے تھانہ کینٹ جانا پڑا تھا جہاں اکرم کے کچھ دوست لڑائی جھگڑے کے کیس میں بند تھے۔صحافی ہونے کے باعث ایس ایچ او کینٹ سے ارسلان کے اچھے مراسم تھے سو اس کے کہنے پر پر ایس ایچ او نے دونوں پارٹیوں کی ایسی صلح کروا دی جس میں اکرم کے دوستوں کا پلہ بھاری رہا تھا۔جس پر اکرم کے دوست بہت خوش تھے اور اسی لیے اس ویک اینڈ پر انہوں نے شائد احسان چکانے کی غرض سے ارسلان کو کھانے پر مدعو کیا تھا جسے ارسلان ٹال نہ سکا لیکن یہاں پہنچنے پر اسے معلوم ہوا کہ یہاں تو صورتحال ہی مختلف ہے۔یہ تو شوقین مزاجوں کا اکٹھ تھا الکوہلک مشروبات کے دور کے درمیان ہی ایک دوست نے موبائیل کال کے زریعے ان تینوں لڑکیوں کو بلوا لیا تھا اور اب یہ چاروں دوست مل کر ان تینوں میں سے کسی ایک ایسی کا انتخاب کر رہے تھے جو محفل کی رونق کو دوبالاکرنے کے ساتھ ساتھ پیسے بھی پورے کروا دے

لڑکیوں کی جانب سے متوقع فراہم کردہ زرخرید سہولیات سے متعلق چند گھٹیا سوال و جواب کے بعد صوفے کے درمیان بیٹھے میزبان نے دوستوں کی مشاورت سے دائیں جانب والی لڑکی کی طرف اشارہ کیا تو اسکے چہرے پر ایسے رنگ بکھر گئے ۔جیسے کسی امتحان میں اول آ گئی ہو۔۔چلو لڑکیو۔۔مونچھوں والے ڈرائیور نے تیز لہجے میں کہا تو باقی دونوں لڑکیوں کے کندھے اچانک ڈھلک گئے۔انکے چہروں کے تاثرات کے ساتھ ساتھ جسم کے خدوخال بھی اچانک بدل گئے۔ مسترد کیے جانے کا دکھ انکی چال سے ظاہر ہو رہا تھااور وہ دونوں خالی خالی قدموں سے واپس بیرونی دروازے کی طرف چل دیں۔ پسند شدہ لڑکی جو شاید انیس سے بیس سال کی رہی ہو گی نے اپنے گلے میں لٹکتا ہوا دوپٹہ اچانک ایک سائڈ پر اچھالا اور اچھل کر ان کے درمیان صوفے پر بیٹھ گئی۔میزبان ساقی نے اس کے لیے گلاس بھرنا شروع کر دیا اور مکروہ قسم کی خوش گپیاں شروع ہو گئیں۔صوفے کی عقبی دیوار پر ایک بڑی قیمتی اور روح پرور پینٹنگ آویزاں تھی جس میں کسی ماہر خطاط نے بہت ہی خوبصورت رنگوں سے مذہبی کتاب کی آیات لکھی ہوئیں تھیں۔ ایک دوست نے ریموٹ کا بٹن دبایا تو اچانک سائیڈوالی دیوار پر لگی پچاس انچ کی ایل ای ڈی پربجلی سی کوندی اور امیتابھ بچن پر فلمایا ہوا انڈین گانا چلنا شروع ہو گیا ۔۔آ جا گناہ کر لے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کڑک کی آواز کے ساتھ دروازے کو باہر سے لاک کر دیا گیا چند مدہوش قہقہے گونجے پھر اکرم کی آواز سنائی دی،ارسلان بھائی جب پیاس بجھ جائے اوربھوک لگے تو بتانا ہم دروازہ کھول دیں گے۔ دوستوں کے اصرار کے باوجود چونکہ ارسلان نے کسی بھی پیش قدمی سے انکار کر دیا تھا اس لیے چاروں شریک محفل اپنی اپنی باری کا کھیل چکے تھے ، اور جب ان کی ارسلان کو منانے کی تمام دلیلیں مسترد ہو گئیں تو ان مدہوشوں نے اب اپنے آخری حربے کے طور پر باہر جا کر کنڈی لگا دی تھی اور ارسلان کواس لڑکی کے ساتھ اس کمرے میں بند کر دیا تھا۔اگرچہ ارسلان کو یہ حرکت ناگوار گزری لیکن انکی ذہنی حالت کے پیش نظر وہ خاموش ہو گیا ۔وہ سمجھ رہا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ وہ بھی اس حمام میں ان جیسا ہو جائے تا کہ دوستی مضبوط ہو۔ ہاں جی شرمیلے بابو ۔۔اچانک وہ لڑکی آ کر اسکے قریب بیٹھ گئی۔اتنی دیر کی محفل میں وہ اتنا جان گیا تھا کہ لڑکی کا نام طاہرہ ہے۔وہ کہ رہی تھی ۔۔چل جلدی کر یار مجھے بھوک بھی لگ رہی ہے۔ اور اپنے گھنے بال کھول لیے۔ارسلان کو خاموش بیٹھادیکھ کر اسے حیرت ہوئی اور بولی۔۔تیرا مسلہ کیا ہے یار؟؟ کچھ نہیں میں مردار اور حرام نہیں کھاتا۔۔۔ارسلان نے جواب دیا۔۔کیا؟ مردار ؟ْحرام؟؟ ارے میرے اندر بھر پور زندگی ہے اور حرام کیسا؟ پیسے دئے ہیں تم لوگوں نے۔ اور میں مزدوری میں ڈنڈی نہیں مارتی ۔۔رزق روزی کا معاملہ ہے۔ چل مکا اب نخرے نہ کر۔ارسلان مسکرا دیا اور بولا۔۔سنو میں یہ کام نہیں کرتا اور تمہارا نام تو ویسے بھی طاہرہ ہے۔پتا ہے اس کا کیا مطلب ہے۔۔اسکا مطلب ہے پاک۔۔اور تم یہ کیا غلیظ کام کر رہی ہو تمہاری عزت غیرت کوئی نہیں لیکن میری تو ہے۔ اس بات پر طاہرہ بھڑک اٹھی۔بکواس نہ کر۔۔میں جانتی ہوں تم جیسے زنخوں کو۔۔جب کسی قابل نہیں رہتے تو عزت اور غیرت جاگ جاتی ہے،اور تم مردلوگ خود کتنے غیرت مند ہو جو اپنی بیٹی کی عمر کی لڑکی کو صرف چھ ہزار میں بک کر لیا ہے۔ اور تمہارے یہ بے غیرت منحوس دوست۔جو جانوروں سے بھی بد تر ہیں۔ اگرچہ زنخے کے طعنے نے اسکی مردانہ انا کو شدید ٹھیس پہنچائی تھی وہ چاہتا تو اسے اپنی مردانگی دکھا سکتا تھا لیکن وہ خاموش ہی رہا۔۔وہ نشے میں بول رہی تھی۔ تو بڑا شریف گھر کا ہے۔۔تیرا کیا خیال ہے؟ میں خاندانی جسم فروش ہوں؟ میری ماں بھی یہی کام کرتی تھی؟ کیا میں کوٹھے پر پیدا ہوئی ؟ نہیں میں بھی ایک تجھ جیسے ایک مرد کے گھر پیدا ہوئی ہوں۔۔۔پتا ہے جب میرا باپ مرا تو میری صرف ایک بہن شادی شدہ تھی۔ماں بوڑھی تھی پانچ بہن بھائی چھوٹے ۔میں نے پرائیویٹ سکول میں نوکری کی تو وہاں پرنسپل کی حوس سے بھاگنا پڑا، مشروبات کی فیکٹری میں بھی اصل کام کے ساتھ دوسرے کام کے لیے مجبور کیا گیا۔ایک سٹور پر سیلز گرل بنی تو سیلز مینوں سمیت منیجر تک سب کی بھوکی نظریں اور ذو معنی جملے مجھے کاٹتے رہتے۔۔جانتے ہو سب سے پہلے مجھ سے کس نے زیادتی کی؟ میرے اپنے بہنوئی نے۔۔اور میں بہن کا گھر بچانے کے لیے خون کے گھونٹ پی کر خاموش رہی کہ اس کے بھی چار بچے ہیں۔ ایسے حالات میں ایک محلے کی دولت مند آنٹی نے مجھے یہ انجانی راہ دکھائی ۔۔سو اب میں اسی میں خوش ہوں۔۔اگر میں مردار ہوں تو اسی معاشرے کے مردوں نے مجھے مارا ہے۔اگر میں حرامخور ہوں تو کون یہاں حلالی ہے؟جانتے ہو میں یہاں سے واپسی پر گھر چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے نان کباب لے کر جاؤں گی تو وہ کتنے خوش ہوں گے؟ وہ نئے کپڑے پہن کر کتنا خوش ہوتے ہیں کیا تم جانتے ہو؟۔۔ تم نہیں جانتے ۔۔تم بھی بے غیرت مرد ہو ۔۔شکل گم کرو۔۔۔اب میرے سر میں درد ہو رہا ہے۔۔۔وہ آنکھیں موند کر لیٹ گئی۔ کچھ لمحے گزر گئے ۔ارسلان کچھ لمحے تو گم سم رہا پھر اس نے آگے بڑھ کر لرزتے ہاتھوں اسکے سر کو دبایا تو اس نے لمحہ بھر جھٹ سے آنکھیں کھولیں جن میں سفید موتیوں جیسے آنسو جھلملا رہے تھے۔ ارسلان نے سوچا کہ آنسووں کا رنگ تو سب انسانوں کا ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ چاہے وہ کسی بھی رنگ یا نسل کا ہو۔ کئی منٹ وہ خاموشی سے اسکا سر دباتا رہا ۔اسے اس وقت وہ بہت معصوم دکھائی دی۔۔اور طاہرہ کو بھی یوں لگا کہ لمس مسیحائی کی تاثیر اسکی پیشانی سے پورے بدن میں سرائیت کر رہی ہے۔ اچانک ارسلان نے باہر کے دوستوں کو آواز دی۔۔۔ دروازہ کھولوبھوک لگی ہے

دیسی گھی میں پکے ہوئے بکرے کی پٹھ کے گوشت کی بھینی بھینی خوشبو کمرے میں پھیلی ہوئی تھی۔روغنی نان،پودینے کی چٹنی،ساتھ کولڈ ڈرنک ۔سب نڈھال دوست بکرے کے گوشت پر ایسے ٹوٹے پڑ رہے تھے جیسے وہ بھی طاہرہ کا گوشت ہو۔ وہ اب بھی بار بار طاہرہ کی طرف اس فاتح شکاری کی نظروں سے دیکھ رہے تھے جس کا تازہ کیا ہوا شکار سامنے ہی ڈھیر ہوا پڑا ہو۔ ارسلان بھی کئی لمحوں بعد ایک لقمہ لگا لیتا۔ایسے میں طاہرہ نے مسکراتے ہوئے ایک لقمہ سالن سے بھرا اور ارسلان کے منہ میں ڈالتے ہوئے اسکے دوستوں سے مخاطب ہوئی ،جانتے ہو آج کی محفل کا دولہا کون ہے؟ کون ہے مرد میدان ؟ اچانک میزبان دوست کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ پھیل گئی۔ اور سینہ پھول گیا۔ یہی شرمیلا ارسلان ہے۔۔تم سب میں ایک یہی ہے جو واقعی مرد کہلانے کا حقدار ہے۔۔یہی اصل غیرت مند جوانمرد ہے۔طاہرہ لگاوٹ بھرے لہجے میں بولی جیسے صدقے واری جا رہی ہو۔۔ارسلان اس بات سے جھینپ کر سرخ ہو گیا۔۔اور میزبان سمیت چاروں کے چہروں پر احساس کمتری کی ہوائیاں اڑنے لگیں اور وہ اس مرغے کی طرح سکڑ گئے جو بارش میں بھیگ گیے ہو۔ اور انہوں نے نظریں جھکائیں اور کھانے کی رفتار بڑھا دی۔۔۔۔ختم شد

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے