کوئی ہے جو مشورہ دے؟

میاں نواز شریف کل سے بہت مضطرب ہیں، بار بار کمرے کے باہر آ کر دیکھتے ہیں کوئی آیا تو نہیں۔۔ پھر اندر جاتے ہیں اور باہر آتے ہیں، پردے میں سے جھانک کر دیکھتے ہیں، اطمینان کا سانس بھر کے پھر واپسی۔۔ واپس ہونے سے پہلے اپنے داماد کیپٹن صفدر مریم سے کہتے ہیں ذرا دھیان رکھنا۔۔وہ بھی پریشان ہو کے سر ہلا دیتا ہے۔۔

ایسے میں نیند کسے ، چین کہاں۔۔ ایک واقف حال کا کہنا ہے میاں صاحب کا حال اس وقت سے ہے جب سے انہوں نے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کاوہ بیان سنا ہے جس میں وزیر اعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اب پھر نرگس والا لطیفہ فٹ ہوتا ہے مگر میں دہراؤں گا نہیں۔ لوگ خود ہی سمجھ جائیں گے۔۔ سب دوست سمجھدار ہیں۔

بہرحال، وزیر اعظم نے جیسے ہی یہ بیان سنا انہوں نے شیکسپیئر کا معروف مکالمہ دہرایا۔۔ یو ٹو بروٹس (You too Brutus) اور یہ کہہ کر انہوں نے کمرے کے چکر لگانے شروع کر دیئے۔۔ اب تک وہ چکر رکے نہیں۔۔ انہی چکروں کے دوران انہیں کئی صفحات پر مشتمل تقریر بھی پکڑائی گئی ، یہ تقریر پانامہ لیکس پر وزیر اعظم کا جواب ہے جو ممتاز ماہرین تقاریر نے اپنی نگرانی میں تیار کروائی ہے، جس میں محترم عرفان صدیقی کی دانش اور عطاء الحق قاسمی کی لطافت کا تڑکا لگایا گیا ہے۔

ایوب خان سے لے کر پرویز مشرف تک تمام سربراہان حکومت و مملکت کو میڈیا کے اسرار و رموز سے آگاہ کرنے والی وزارت اطلاعات کے قابل ترین افسران نے کوہ ہمالیہ سے لے کر بحرہ اوقیانوس تک ہر قسم کی جڑی بوٹیوں کی مدد سے تقریر تیار کی تھی۔۔ خادم اعلیٰ نے اس میں حبیب جالب کی نظم کے اشعار ڈلوائے ۔اور مکے لہرا لہرا کے مائیک توڑنے کی ریہرسل بھی کرانے کی کوشش کی۔

واقفان حال کا کہنا ہے وزیر اعظم کہتے رہے کہ شیخ رشید سے مجھے کوئی امید نہیں تھی، عمران خان میرا ازلی دشمن ہے، طاہر القادری پر بھی احسان کیا تھا اس لیے اس کے شر سے بچنا تو ہے۔۔ اب ایک اور محسن کش سے پالا پڑا ہے، وہ جس کی چیف جسٹسی۔۔ میرے لانگ مارچ کے دم سے تھی، وہ جو طویل عرصے تک ہر ادارے سے میری پشت پناہی کے باعث ٹکراتا رہا۔ وہ جس نے میری شہ پر یوسف رضا گیلانی کی کھڑے کھڑے چھٹی کروا دی۔۔ وہ جس کے بیٹے کا کیس دبانے میں بھی ہم نے مدد کی۔۔ وہ آج میرے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہا ہے۔
پھر بڑبڑاتے، میں نے شیخ رشید پہ احسان کیا وہ میرے خلاف ہوا، عمران خان کو کینسر ہسپتال کے علاوہ فیصل ٹاؤن میں بھی پلاٹ دیا ، وہ میرا مخالف اول ہے۔۔ طاہر القادری کو بھی میں نے ماڈل ٹاؤن میں منہاج القران اکیڈمی کے لیے پلاٹ دیا وہ اسی اکیڈمی میں بیٹھ کے میرے خلاف لوگوں کو بھڑکاتا ہے۔ چیف جسٹس کو بحال ہم نے کروا کے احسان کیا۔۔ اس لیے یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ وہ قول بالکل درست ہے کہ جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو۔۔ اب بچنا ہی ہو گا۔

آؤ بھئی مجھے ان باہر کے دشمنوں کے ساتھ ساتھ اپنی پارٹی کے اندرونی دشمنوں سے بچنے کی بھی کوئی تدبیر بتاؤ۔۔ کوئی ہے ، کوئی ہے۔۔ جو مجھے یہ تدابیر بتائے۔۔ یہ سننا تھا کہ اچانک ہر کھڑکی دروازے سے کئی افراد اچانک اندر گھس آئے۔۔ سب نے کہا میاں صاحب ۔۔ آپ نے کمال کردیا۔۔ اتنی اچھی بات آپ نے سوچی ہے وہ کمال ہے۔

پر میں نے تو ابھی صرف یہ سوچا ہے کہ مجھے کچھ دوست بتائیں کہ میں نے کرنا کیا ہے، وزیر اعظم نے کہا

جی جی۔۔ یہی تو ہم بھی کہہ رہے ہیں کہ آپ نے بہترین کام کیا جو ہمیں طلب کر لیا، ہم سے مشاورت مانگی ہے، یہ کیا کم ہے کہ آپ نے سوچنے جیسا کام کیا۔۔ ہم ہیں ناں۔۔ ہم پر آپ کو اعتبار نہیں۔۔ دیکھئے ہم نے آپ کے برے وقت میں بھی آپ کو نہیں چھوڑا تھا۔ ہم ہی آپ کو بہترین مشورے دیں گے وہ بھی بالکل مفت۔۔ ویسے ہمیں یقین ہے کہ آپ خود بھی جو کچھ سوچیں گے وہ درست ہوگا۔سب نے ایک آواز ہو کر وزیر اعظم زندہ باد کے نعرے لگائے

نعرے چھوڑیں مجھے بتائیں ، میں نے کیا کرنا ہے۔۔ وزیر اعظم نے مجبور ہو کر کہا

واہ واہ۔۔ سر ، کیا بات کی ہے؟ بس آپ کو کیا کرنا ہے آپ کو اچھی طرح یاد کروا دیا ہے۔۔ بس آپ کی آنکھوں میں آنسو ہونے چاہئیں، آواز بھرائی ہوئی ہونی چاہئے، آپ کی زبان پر یہی ہونا چاہئے کہ اپوزیشن کے تمام لوگ کرپٹ ہیں۔ عمران کی بھی آف شور کمپنی ہے، ترین کی بھی علیم کی بھی اور علیمہ کی بھی۔۔مونس الہٰی کی بھی تو ہے۔ یہ سب میرا احتساب کیسے کر سکتے ہیں۔

یہ تو اپوزیشن پر الزام ہیں، میں اپنی صفائی کیسے دوں؟ وزیر اعظم نے کہا

اچانک ایک نامانوس آواز آئی۔۔ سر ۔ میں کچھ کہوں؟ وزیر اعظم نے اثبات میں سر ہلادیا۔ سر۔ آپ آج کسی پر الزام لگانے کے بجائے سب کو یہ پیشکش کردیں کہ آپ تحقیقات کی خاطر خود مستعفی ہونا چاہتے ہیں ، وہ لوگ جن پر اسی قسم کے الزامات ہیں وہ اپنے فیصلے خود کریں۔

بکواس کرتے ہو؟ کس نے اسے بلایا ہے؟ وزیر اعظم نے ڈار، چھوٹے میاں کے بعد اپنے دیگر وثیقہ نویس حضرات کی جانب غصے سے دیکھتے ہوئے پوچھا؟میں کیوں استعفیٰ دوں؟
بالکل ،چلو باہر نکلو۔۔ تمہاری عقل ہم سے زیادہ ہے ، درباریوں نے بیک آواز سوال کیا۔۔ سب نے اسے باہر نکال دیا۔

ہماری بات مانیں۔ آپ بالکل بے قصور ہیں ہم آپ کے لیے قسم اٹھا سکتے ہیں۔اطمینان سے جائیں، اعتماد سے روتے ہوئے تقریر کریں۔ سب نے کہا

بالکل ٹھیک ہے، آپ تو میرے کردار سے واقف ہیں، ہمارے خاندان نے تو قربانیاں دی ہیں، میں تقریر پھر سے یاد کرتا ہوں۔ ویسے بھی مشاورت کے بعد وہ خود کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کر رہے تھے۔

(نوٹ: یہ کالم جب لکھا گیا تو وزیر اعظم نے قومی اسمبلی سے خطاب کرنا تھا، پیشہ وارانہ مصروفیت کے باعث اسے اپ لوڈ نہیں کر سکا)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے