’میاں صاحب ڈٹ جاؤ ویکھی جائے گی‘

قومی اسمبلی کا پیر کے روز اجلاس شروع ہونے سے پہلے یہ کہا جارہا تھا کہ ہ یہ اجلاس بڑا ہنگامہ خیز ہوگا۔ حکومت اور حزب مخالف کے رہنما پاناما لیکس کے معاملے پر ایک دوسرے پر تابڑ توڑ حملے کریں گے اور اس بات کے بھی امکانات ہیں کہ کچھ ارکان پاناما لیکس کے معاملے پر آپس میں اُلجھ بھی پڑیں۔

اجلاس شروع ہونے کے بعد ایک گھنٹے تک ایوان میں موجود ارکان وقفہ سوالات میں اتنی دلچسپی کا اظہار کرر ہے تھے کہ گمان ہو رہا تھا کہ قومی اسمبلی کے ارکان کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہوگیا ہے اور وہ ملک کو مسائل سے نکال کر ہی دم لیں گے۔

لیکن یہ خیال صرف پانی کا بلبلہ ثابت ہوا اور جونہی وزیر اعظم میاں نواز شریف ایوان میں تشریف لائے تو حکومتی ارکان ’دیکھو دیکھو کون آیا شیر آیا شیر آیا‘ کے نعرے لگا کر میاں نواز شریف سے اپنی وفاداریوں کا اظہار کرتے رہے۔

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ ایوان میں آئے تو پاکستان پیپلز پارٹی کے کسی بھی رکن نے ڈیسک بجانے کی زحمت تک گنوارا نہیں کی۔ لیکن جب پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین تو اُن کی جماعت کے ارکان نے نعرے لگانا شروع کردیے ’شیر آگیا‘۔ تاہم بعد میں جب اُنھیں احساس ہوا کہ یہ تو حکمراں جماعت کا نعرہ ہے تو اس پر اُنھوں نے خاموشی اختیار کرنے میں ہی عافیت جانی۔

وزیر اعظم کی تقریر کے دوران باڈی لینگویج سے وہ بڑے پراعتماد نظر آرہے تھے۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان وزیر اعظم کی تقریر بڑی غور سے سنتے ہوئے نوٹ لے رہے تھے۔ لیکن کچھ نوٹ کو وہ بار ہا کاٹ رہے تھے جس سے اُن کے چہرے پر اضطراب کی کیفیت نمایاں نظر آرہی تھی جبکہ سید خورشید شاہ بڑے پرسکون طریقے سے اپنی سیٹ پر براجمان تھے۔

عمران خان جس طرح وزیر اعظم کی تقریر کے نوٹس لے رہے تھے اس سے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ نہ صرف میاں نواز شریف کی تقریر کا جواب دیں گے بلکہ آف شور کمپنی کے بارے میں اپنا موقف بھی پیش کریں گے۔ تاہم اُن کی یہ خواہش اس وقت دم توڑ گئی جب قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے یہ کہہ کر بائیکاٹ کا اعلان کردیا کہ چونکہ وزیر اعظم نے پاناما لیکس سے متعلق اپوزیشن کی جماعتوں کے سات سوالوں کے جواب نہیں دیے اس لیے وہ بائیکاٹ کر رہے ہیں۔

عمران خان کی باڈی لینگویج سے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ شاید وہ اپوزیشن لیڈر کے اس فیصلے کے لیے تیار نہیں تھے۔ عمران خان کی ساتھ والی نشست پر بیٹھے ہوئے شاہ محمود قریشی نے اپنی پارٹی کے قائد کو اُٹھنے کا اشارہ کیا۔

اپوزیشن جماعتوں نے قائدین نے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ اُنھوں نے طے کیا تھا کہ وزیر اعظم کی تقریر کے بعد اجلاس کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔

لیکن اس دعوے کے برعکس حزب مخالف کے ارکان ایک ہی وقت میں اپنی کرسیوں سے نہیں اُٹھے بلکہ کچھ ارکان تو تھوڑی دیر کے لیے اپنی سیٹوں پر بیٹھے رہے کہ شائد سید خورشید شاہ بائیکاٹ کا فیصلہ واپس لے لیں۔

160516194030_imran_and_aitzaz_640x360_epa_nocredit

وزیر اعظم اپنی تقریر کے دوران جب عمران خان کا نام لیے بغیر اُنھیں تنقید کا شنانہ بنا رہے تھے تو حکومتی جماعت کے ارکان یہ آوازیں بھی لگا رہے تھے کہ ’میاں صاحب ڈٹ جاؤ ویکھی جائے گی‘۔

قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہونے سے پہلے یہ منظر بھی دیکھنے کو ملا کہ پاکستان کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ایوان کی کارروائی دیکھنے کے لیے قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کو تین پاسز جاری کرنے کی درخواست کی۔

لیکن قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے حکام نے صرف ایک پاس جاری کیا اور وہ بھی افتخار محمد چوہدری کے نام پر تھا جبکہ باقی دو افراد کو پاسز جاری ہی نہیں کیے گئے۔

ایک وقت وہ بھی تھا جب سرکاری اہلکار کی افتخار محمد چوہدری کی عدالت میں پیش ہوتے ہوئے ٹانگیں کانپتی تھیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے