چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے

آج میرے خیالات و احساسات کی دنیا میں ایک ہیجان برپا تھا۔اپنے ملک سے میلوں دور بیٹھ کر بھی اپنے ہم وطنوں کی بے کسی اورانکے اپنے ملک میں غریب الوطنی سے بد تر حالات پر آنکھوں سے آنسو بے اختیار میرے چہرے پر آکر میرے کرب و درد کے ترجمان بن رہے تھے۔یوں لگ رہا تھا جیسے کہ میں اپنے ملک میں دورِ غلامی میں انگریز کے ان مظالم کی جھلک دیکھ رہا ہوں جو خصوصا انہوں نے آزادی کے متوالوں کے ساتھ ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کے بعد روا رکھے۔قائدِ اعظم اور علامہ اقبال کے ارشادات بار بار میرے دل و دماغ کے آئینے پر چمکتے دھندلاتے میرے شرم و ندامت سے بھرے جذبات کو دعوتِ فکر دے رہے تھے۔اپنی قومی بے حسی اور اخلاقی درماندگی ذہن کے پردے پر عجیب و غریب قسم کے سوالات لکھے جارہی تھی ۔ عین اس وقت جب ایک نجی ٹی وی چینل پر ایبٹ آباد کی عنبرین نامی لڑکی کی ہولناک اور دل سوزواقعے کی خبر چل رہی تھی ۔انسانی درندگی کی نشاۃ ثانیہ یا پھر طاقت و سرکشی کا غرور، اسلام کے نام پر بنے اس ملک میں اسلام پسندوں کے لئے لمحہء فکریہ یا پھر قائدِ اعظم کے بے عمل پیروکاروں کے نعروں اور کتابی قانون اور دستور کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ، غربت اور لاچارگی کا سرِ عام مذاق یا پھر انسانی حقوق کے نام نہاد علمبرداروں کو دعوتِ مبارزت؟؟؟؟؟؟
ذہن عجیب و غریب قسم کی کشمکش میں کبھی مجبور و مزدورکی بے بسی اور لاچارگی پر ماتم کناں تو کبھی عنبریں جیسی کئی حوا کی بیٹیوں کی قسمت پر نوحہ کناں تھا۔ زبان پر ساحر لدھیانوی کے یہ اشعار لا شعوری طور پرفکر و غم کے عجب احساس کے ساتھ آتے گئے
مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی یشودا کی ہم جنس راداھا کی بیٹی
پیغمبر کی امت زلیخا کی بیٹی
ثناء خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟؟؟؟؟
یہ واقعہ دلخراش جہاں ضمیر و احساس کو زخمی کرتا گیا وہیں بے بسی اور لاچارگی کی زبان میں بے شمار سوالات اہلِ اطن کے لئے چھوڑ گیا۔عنبریں کی آہیں اور سسکیاں اور فرعونیت کے آگے اسکا کمزور وجود میری قومی حمیت اور اسلامی تشخص پر خندہ زن، طاقت کی خوفناک وادیوں میں اسکی دبی چیخیں عقل و شعور کی دنیا میں طلاطم اور کہرام برپا کرکے شایدحبیب جالب کی زبانی کہہ رہی تھیں
کہاں ٹوٹی ہیں زنجیریں ہماری ؟؟؟ کہاں بدلی ہیں تقدیریں ہماری؟؟؟
اور ایک عنبرین ہی کیا یہاں تو ظلم وجبر کی داستانیں بیشمار ہیں ۔ کہیں شاہ رخ جتوئی کی رعونیت ہے تو کہیں نیر بخاری کا زعم و جلال ہے کہیں پنجاب پولیس کی وحشیانہ انکاؤنٹرز ہیں تو کہیں وزیروں کے پیادوں کی حیوانیت اور لاابالی کے قصے ہیں اور ان سب میں جو قدرِ مشترک ہے وہ یہ کہ انکی درندگی اور ظلم کا نشانہ بننے والے سارے معاشرے کے وہ مجبور اور بے بس ہیں جنکو زندگی کے سہانے خواب دکھاکر ہمیشہ جاگیردار طبقہ اپنی قوت کے سہارے لوٹتا چلا آیا ہے۔
ہر روز کہیں ملک کے کسی حصے میں غربت اور مجبوری کا قتلِ سرِ عام ہوتا ہے۔قوت و رعونت آئے دن انسانیت کے حدود پھلاند کر اپنی حیثیت اور رعب و دبدبے کی دھاک بٹھانے کے لئے بڑے آرام سے غریب کی دنیا کو تاراج کردیتی ہے۔ ایسے میں واقعی سوچنے پر مجبور ذہن سوالوں کے ساتھ کھڑاپریشان حالی میں یہی پوچھ رہا ہے کہ کیا واقعی ہم آزاد ہیں؟؟؟؟؟
ْشاید آج علامہ اقبال کی روح تڑپ رہی ہوگی اور قائدِ اعظم کا احساس اس ملک میں حوا کی بیٹیوں اور ہزاروں بے بسوں پر ڈھائے جانے والے جبرکو دیکھ کر زخمی ہوگا۔ وہ بزرگانِ ملت جنہوں نے دن رات ایک کرکے انگریز اور ہندو سامراج سے آزادی کی جنگ لڑی۔ وہ آج مسلمان معاشرے میں مسلمانوں کے ہاتھوں ستم رسیدہ طبقے، مجبوروں اور بے کسوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو دیکھ کر نہ جانے کرب و درد کے کس حال میں ہوں گے؟؟
قوموں کی زندگی میں قانون کی حکمرانی اور اخلاقی اقدار کا تحفظ بڑے اہم ہوتے ہیں۔لیکن آئے روز کے انسانیت سوز واقعات کو دیکھ کر ایسے لگتا ہے۔ کہ یہاں نہ تو انکا کوئی نگہبان ہے اور نہ ہی کوئی پرسانِ حال۔ سیاسی شعبدہ بازوں کے لئے قانون کی حکمرانی صرف اس حد تک ہے کہ انکا جاہ و جلال محفوظ رہے۔ اور انکے عمر اقتدار پر کوئی آنچ نہ آئے۔ لیکن بلدیہ کراچی میں اگر سینکڑوں مزدور جل کر خاک ہوجائیںیا ماڈل ٹاؤن میں کھلے عام بربریت پرانسانی شرافت اور اخلاقی اقدار شرمسار کھڑے ہوں تو انصاف مانگنے والوں کی سادہ لوحی پر خندہ زن قوتیں کمیشن، کمیٹی اور چند ہمدردانہ بیانات انکے جولی میں ڈال کر چلے جاتے ہیں۔جس قانون کی پاسداری کا حلف لے کر قوم کے نمایندے بڑے زعم سے عوامی نمائندگی کا دم بھرتے ہیں سچ پوچھو تو ان ہی قومی ناخداؤں کے ہاتھوں قانون کا چہرہ سب سے زیاد ہ د اغدار ہے۔
عنبرین جیسی کتنی ہیں جو آئے روز جور و ستم کا نشانہ بنتی ہیں ۔ کتنی ہیں جنکے سر سے حیا کی چادر اتار دی جاتی ہے۔ اور کتنی مائیں بہنیں ہیں جو اپنی سانسوں کی ڈور کو ٹوٹنے سے بچانے کے لئے آئے دن مجبوری اور بے بسی کے بازار میں بک جاتی ہیں۔ کتنے بے سہارا ہیں جو انصاف کی بھیک مانگتے مانگتے اپنی عمر گنوادیتے ہیں۔ معاشرے میں کتنے ہیں جو صحت کی بنیادی سہولت سے محروم بسترِ علالت پر مایوسی اور مجبوری کے عالم میں زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔کتنی مائیں ہیں جو اپنے ہی بچوں کا گلہ گھونٹ دیتی ہیں صرف اس لئے کہ وہ انکو بھوک ، غربت و افلاس کے عذاب سے نجات دلادیں۔ غربت و مجبوری کے ماحول میں پیدا ہونے کے جرم میں آج بھی قوم کے کتنے بچے علم و ہنر کے زیور سے صرف اسلئے محروم ہیں کہ علاقے کے فرعونی اوصاف کے وڈیرے جاگیر دار اور نواب کے آگے سر جھکا کر بیٹھنے والے کہیں کم نہ ہو جائیں۔
ایسے حالات میں قلمکار اور میڈیا کے لوگ جو صدائے حق بلند کرلیتے ہیں۔ اسکا اثر بھی عارضی ہوتا ہے کیونکہ جب تک مسندِ اقتدار پر وہ لوگ نہیں بیٹھیں گے جو قوم کی خدمت کو اپنا فرض اور عبادت سمجھیں گے تب تک قانون کی حکمرانی نہیں ہوگی۔ اور جب تک قانون سب سے بالا تر نہیں ہوگا ۔ نظام مظبوط نہیں ہوگا۔ انصاف کا حصول ایک خواب ہی رہیگا۔ ظلم ہوتا رہیگا۔ کل پھر کوئی عنبرین کسی کی درندگی کا نشانہ بنے گی۔ کوئی ماں پھر بچوں کے بوجھ تلے دب کر دل دہلادینے والے عمل پر مجبور ہوگی۔ اور ملک کے معززین اور قوم کے غمخوار اور رہنماء ہمیشہ کی طرح وعدوں کی ڈور سے امید کی نیا کو باندھ کر بڑی بے باکی سے اپنے شہنشاہی سفر پر رواں دواں ہونگے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ کب تک یوں ہی چلتا رہیگا؟؟ حالات کب بدلیں گے؟؟ میں نے تاریخِ عالم سے پوچھا اور فکر و دانش کے علمبرداروں سے جاننے کی کوشش کی تو پتہ چلاکہ دنیا میں تبدیلی اور انقلابات ہمیشہ محنت کش طبقے کے ہی مرہونِ منت رہے ہیں۔ لہذا حالات تب تک نہیں بدلیں گے۔ جب تک ملک کا غریب اور محنت کش جاگ نہ جائے۔ وہ دوست اور دشمن میں تمیز نہ کرلے۔ جب تک قوم کے رہنماء وہ نہیں بنیں گے جنکا جینا مرنا قوم کے ساتھ ہو۔ وہ رہنماء جو عوام میں سے ہوں۔ اور جب تک قوم کے حقیقی غمخوار اس تبدیلی کے لئے میدان میں نہ آئیں۔ جب تک علماء دین کے نام پر کاروبار کرنے کی بجائے قوم کے سامنے دین کا عملی اور حقیقی نمونہ پیش نہ کریں۔ اور جب تک قوم اپنے آپ کو تبدیلی کے لئے تیار نہ کرے لہذا عوام کو ظم و جبر کے خلاف اُٹھنا ہوگا۔ سر اُٹھاکے چلنا ہوگا منزل کی طرف ۔انداز سیاست بدلنا ہوگی ۔ ورنہ تو نہ چاہتے ہوئے بھی فیض احمد فیض سے متفق ہونا پڑیگا کہ شاید میرے دیس کا یہی دستور ہے۔جو ہم دیکھتے آرہے ہیں کہ
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے