بھارت نے دریاؤں کے رخ تبدیل کرنیکا منصوبہ بنا لیا

نئی دہلی: بھارت نے ملک میں شدید خشک سالی سے نمٹنے کے لیے دریاؤں کے رخ تبدیل کرنے کا منصوبہ بنا لیا۔

محکمہ آبپاشی کی وزیر اْوما بھارتی نے برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہو ئے کہا کہ بھرم پترا اور گنگیز سمیت بڑے دریاؤں سے پانی کو خشک سالی سے متاثرہ علاقوں کی طرف موڑا جائے گا۔

یہ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔

انڈیا میں موسمی حدت میں اضافہ خشک سالی کا سبب بن رہا ہیں جہاں درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر چکا ہے۔

دریاؤں کے پانی کے منتقل کیے جانے کے لیے 30 مقامات پر رابطوں کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔

ان میں سے 14 شمالی میں ہمالیہ کے برفانی تودوں سے آنے والے پانیوں پر ہیں جبکہ 16 دیگر علاقوں سے ہیں۔ ماحولیات کے ماہرین نے اس منصوبے کی مخالفت کی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس کے ایک دوسری ماحولیاتی آفت جنم لیگی لیکن ملک کی سپریم کورٹ نے اس پر عمل در آمد کا حکم دے دیا ہے۔

تاہم اوما بھارتی کا کہنا تھا ‘دریاؤں کو آپس میں جوڑنے کا یہ منصوبے ہمارا اولین ایجنڈا ہے اور ہمیں اس کے لیے لوگوں کی حمایت حاصل ہے اور ہم اسے جلد از جلد مکمل کرنے کے لیے پر عزم ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ پانچ مقامات پر کام جاری ہے اور اتر پردیش اور مدھیہ پردیش میں دریاؤں کا پہلا رابطہ جلد کھول دیا جائے گا، اوما بھارتی کے مطابق 1947 میں ملک کی آزادی کے بعد سے ملک میں دریاؤں کے رابطے کا یہ پہلا منصوبہ ہے۔

ان کے مطابق آبپاشی اور پینے کے پانی کی فراہمی کے لیے بھی آئندہ برسوں میں منصوبے بنائے جائیں گے اور یہ منصوبہ طویل المدتی ہے۔

گذشتہ دو برس سے برے مون سون کے باعث انڈیا کو خشک سالی کا سامنا ہے۔ اس کی 29 ریاستوں میں سے نصف کو خشک موسم اور پانی کے بحران کا سامنا ہے۔ دہلی کی حکومت پانی کی ٹرینیں متاثرہ علاقوں میں بھیج رہی ہے۔

پانی نے محکمے کی وزیر اْوما بھارتی کا کہنا ہے کہ ‘ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پانی کا بحران آئندہ بھی رہے گا لیکن اس منصوبہ کے تحت کم لوگوں کی مدد کرنے کے قابل ہوں گے۔

‘ان کے بقول ‘لوگوں نے اس منصوبے کا خیر مقدم کیا ہے اور وہ خوشی خوشی نقل مکانی کو تیار ہیں۔

‘ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ منصوبے نہ معاشی نہ معاشرتی طور پر ممکن ہے۔

حکومت پر بھی بغیر کسی کاغذی جانچ پڑتال کے اس کے لیے ماحولیاتی نقطہ نظر سے منظوری دینے کا الزام ہے۔

جنوبی ایشیا میں ڈیمز، دریاؤں اور لوگوں کے لیے جام کرنے والے ادارے کے اہلکار ہیمانشو ٹھکر کا کہنا ہے ‘یہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے تناظر میں تو ناممکن ہے کیونکہ دریاؤں کے بہاؤ کا کیا ہوگا۔

‘ان کا مزید کہنا تھا’یہ منصوبہ اس سوچ پر بنایا گیا ہے کہ خشک علاقوں میں پانی پہنچایا جائے لیکن اس بارے میں کوئی قابلِ ذکر تحقیق نہیں ہے کہ کن علاقوں میں پانی زیادہ ہے اور کن میں کم ہے۔

حکومت کے مطابق اس منصوبے سے 35000 ہیکٹر رقبے کو آبیاری ملے گی جبکہ 34000 میگاواٹ بجلی کی پیداوار ہو گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے