زہریلی مٹھائی، مقدمے کو خصوصی عدالت میں بھیجنے پر غور

جنوبی پنجاب کے شہر لیہ کی تحصیل کہروڑ لعل عیسن میں زہریلی مٹھائی کھانے سے ہونے والی ہلاکتوں کے مقدمے میں انسداد دہشتگردی کی دفعات شامل کرنے اور یہ مقدمہ انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت میں چلانے پر غور کیا جا رہا ہے۔

[pullquote]٭ مٹھائی میں زہر کیسے ملا؟، ایک اور اقبالی بیان سامنے آ گیا
[/pullquote]

کہروڑ عیسن میں زہریلی مٹھائی کھانے سے 30 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ مقدمے کی تفتیش کرنے والی پولیس ٹیم کے مطابق مٹھائی میں کیڑے مار دوا دکان کے مالک کے چھوٹے بھائی نے ملائی تھی۔

لیہ کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کپٹین ریٹائرڈ محمد علی ضیا نے بتایا کہ ’مقدمے کا چالان ابھی مکمل نہیں ہوا۔ فورنزک رپورٹ تیار ہوچکی ہے تاہم اب مقدمے میں دہشتگردی کی دفعات شامل کرنے اور اس مقدمے کو انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت میں بھجوانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے لیے دستاویزات اکٹھی کی جا رہی ہیں۔ جلد ہی مقدمے کا چالان عدالت میں پیش کردیا جائے گا۔

زہریلی مٹھائی کھانے کا واقعہ گذشتہ ماہ پیش آیا تھا جب ایک مقامی شخص عمر حیات کے پوتے کی پیدائش کی خوشی میں تقسیم کی جانے والی مٹھائی کھانے سے بڑی تعداد میں لوگ بیمار ہوگئے تھے۔

پولیس کے مطابق 12 افراد تو مٹھائی کھاتے ہی ہلاک ہوگئے جن میں نومولود کا باپ بھی شامل تھا۔ جبکہ بعد میں زہریلے لڈو کھانے والے 18 افراد مختلف ہسپتالوں میں دم توڑ گئے تھے۔

دوران تفتیش مٹھائی کی دکان کے مالک طارق محمود کے چھوٹے بھائی خالد محمود نے اعتراف کیا تھا کہ اس نے مٹھائی میں کیڑے مار دوا طارق سے اپنا بدلہ لینے کے لیے ملائی تھی۔ طارق اس سے ناروا سلوک رکھتا تھا، اسے خرچہ نہیں دیتا تھا بلکہ اسے زدوکوب بھی کرتا تھا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے