میاں صاحب جواب کیوں دیں؟

میں نے پہلی بار جب ٹی وی پر برطانیہ کی پارلیمنٹ کے اجلاس کی ہلکی سی جھلک دیکھی تو حیرانگی نے کچھ دیر کے لئے تو میرے سننے، سمجھنے اور دیکھنے کی تینوں حسیں کسی گانٹھ کی طرح باندھ کے رکھ دیں۔ پاکستان میں رہتے رہتے ایسے مناظر کی آنکھیں عادی تھیں، نہ کان اور نہ ہی عقل۔ اس لئے تینوں پہ اچانک جیسے فالج کا حملہ ہو گیا ہو۔

منظر کچھ ایسا تھا کہ سپیکر کے دائیں جانب حکمران جماعت کے اراکین تھے اور بائیں جانب اپوزیشن۔ حکران پارٹی کی جانب سے اس وقت گورڈن براوُن وزیر اعظم تھے۔ پہلی حیرانی تو یہ تھی کہ وہ "بقلّم خود” وہاں موجود تھے۔ میں نے بارہا آنکھیں بھی ملیں کہ کہیں ذہن کسی تخیّل کی گرفت میں نہ ہو لیکن ایسا نہیں تھا۔ وہ آنکھیں ملنے کے باوجود غائب نہیں ہوئے۔ اور اس حیرانی کو پٹخ پٹخ کے مات دیتی دوسری اور سب سے بڑی حیرانی یہ تھی کہ وہ اپوزیشن کی طرف سے کئے گئے ہر طرح کے تند و تیز اور چبھتے ہوئے سوالوں کے جوابات خود دے رہے تھے۔

میں اس انتظار میں ہی رہا کہ شاید انہوں نے بھی کوئی پرویز رشید، سعد رفیق یا طلال چوہدری رکھا ہوا ہو جو سوال سے متعلّقہ حقائق پہ مبنی جواب کی بجائے چند ایسی جگہوں کے نام ہی بتا دیں کہ جن کے نام لینے سے فرشتہ سیرت سیاست دانوں کی ناپاکی کا خطرہ ہو لیکن ایسا نہیں ہوا۔ وہ منظر دربار جیسا ضرور تھا لیکن درباری کہیں نظر نہیں آرہے تھے۔

لیڈر ہوتے ہی ایسے ہیں جوہراول دستوں میں بہادر جنگجووُں کی طرح اپنا سینہ تان کے دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح ڈٹ کے کھڑے رہتے ہیں، بزدلوں کی طرح محلوں کے ریشمی تکیوں میں منہ دبا کے شرمندگی کو گلے لگا کے وقت کٹنے کے منتظر نہیں رہتے۔ یہ تو جمہوریت کی دیوی کی پیدائش سے پہلے بادشاہوں کا وطیرہ رہا ہے جو خود کنیزوں کے جھرمٹ میں تب تک زندگی کے پھیکے پن کو رنگین کرتے رہتے تھے کہ جب تک دشمن شہنشاہیت کی حفاظت پہ مامور ہر ہر فوجی، دربان اور کمی کمینوں کو روندتے ہوئے خلوت کی چاردیواریاں پار نہیں کر آتے تھے۔

میری حیرانی بجا تھی، میں نے ایسے مناظر کبھی اپنے ملک میں نہیں دیکھے تھے۔ اوّل تو ہمارےوزرا ء اعظم پارلیمنٹ کے لئے ہمیشہ کسی با پردہ خاتون کی طرح ہی ہوتے ہیں کہ جس کی جھلک زیادہ تر حادثاتی ہی ہوتی ہے اور جن کا چہرہ یا تو فقط محرم کے حقوق نظر کے لئے ہوتا ہے یا پھر بوجۂ مجبوری کسی حکیم یا ڈاکٹر کے۔ اور اگر کبھی کسی جمہوری دوائی کی طلب ان کو پارلیمنٹ کے دروازے تک لے بھی آئے جیسا کے دھرنوں میں نواز شریف صاحب نے اپنا بستر بھی ادھر ہی لگا لیا تھا۔ تو اپوزیشن کے سوالوں کو جواب کے قابل ہی نہیں سمجھا جاتا اور اس کی حالیہ مثال پانامہ لیکس کی صورت نظر آئی۔

ایک وہ وقت کہ جب دھرنوں میں پرائم منسٹر صاحب ترس رہے تھے کہ اپوزیشن کسی طرح آئے اور ان کی چند گذارشات سنے اور اب یہ دور کہ پارلیمنٹ تک لانے کے لئے پہلے تو دباوُ بڑھا کے کسی نہ کسی طرح اس با پردہ ہستی کو منایا گیا کہ آپ منہ دکھائی کے لئے تشریف لے آئیں اور جب وہ ناچار مان گئیں تو بڑی محنت سے تیا رکئے گئے سات سوالات ان کے لئے ایسے بن گئے جیسے کسی عورت کو اپنے بدترین دشمن کے ساتھ سات پھیرے لینے پڑ جائیں اور وہ منڈپ سے بھاگ نکلے۔

شہنشاہوں کے شہنشاہ محترم نواز شریف صاحب نے فرمان اکبری جاری کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کو ایسے سوالات کا کوئی حق نہیں۔ جی ہاں اسی اپوزیشن کو جن کے منہ سے اپنے حق میں چار لفظ سننے کے لئے دھرنوں کے دوران ان کی سماعتیں ایسے بے چین تھیں جیسے بہرہ آواز کو ترستا ہے۔ اور ان کے ثنا خوان اعظم جناب رانا ثنا ءفرماتے ہیں کہ یہ سوالات تو پارلیمنٹ میں بیٹھے ہر شخص پہ لاگو ہوتے ہیں ، ہر کوئی ان کا جواب دہ ہے۔بات تو ان کی ٹھیک ہے۔ جب پورا شہر ہی چور ہو تو سزا صرف ایک ہی کو کیوں۔

اور لگتا ہے یہ طریقہ بھی رانا صاحب نے مجھ سے ہی سیکھا ہے۔ ایک دفعہ مطالعہ پاکستان کی اسّی طلبہ کی جماعت میں میرے سوا کسی کو بھی سبق یاد نہیں تھا (سچ ہے خود تعریفی نہیں) استاد محترم نے پوچھا ان کا کیا کریں، میں نے کہا سر سبھی پھنس گئے ہیں ، ایک آدھ ہوتا تو اور بات تھی، آج چھوڑ دیں۔ انہوں نے کمال مہربانی سے کل کے وعدے پہ سبھی کو چھوڑ دیا۔ مگر رانا صاحب کو کوئی سمجھائے کہ جب سارا شہر ہی چور نکل آئے تو انصاف کے تقاضے تبھی پورے ہوتے ہیں جب ابتدا ء امیر شہر سے کی جائے کیوں کہ جب تک چھت میں ہوئے سوراخ نہ بھرے جائیں بارش کے پانی اور اولوں سے جان نہیں چھٹتی۔ بھولا ہوا سبق کل یا د کیا جا سکتا ہے مگر چور کو دیا گیا ہر اضافی دن سدھار کا نہیں ایک اور چوری کا موقع ثابت ہو سکتا ہے۔

کمرہ امتحان میں بیٹھا طالب علم تمام ضروری سوالوں کے جواب دینے کی کوشش کیوں کرتا ہے کیوں کہ وہ چاہتا ہے کہ پاس ہو جائے اور جن کی اس سے امیدیں بندھی ہیں ان کے سامنے سرفراز ہو جائے۔ وہ آخری منٹ تک کوشش کرتا ہے تا کہ فیل ہونے کے امکانات کم سے کم ہوںمگر جسے بعد میں پیسے دے کے پاس ہونا ہو یا جس نے پہلے سے پیپر لیک کرا رکھا ہو اسے کیا پڑی کہ راتوں کو جاگ جاگ کے سوالوں کے جواب تلاشتا پھرے، اسے ناکامی کا کیا خوف۔

ہمارے پرائم منسٹر صاحب بھی اگر ان سوالوں کے جواب نہ بھی دیں تو انہیں کس بات کا اندیشہ ہے۔ کیا اس بات کا کہ اپوزیشن مل کے انہیں اٹھا کے باہر پھینک سکتے ہیں۔کیا اپوزیشن میں اکیلے فضل الرحمٰن ہی ایسے ہیں جو اپنے علاقے میں ترقیاتی فنڈز کے نام پہ وصولیوں کے بدلے پنجاب کے شیروں کو للکارنے والوں پہ یہودی ایجنٹ ہونے کے الزامات لگانے کی جرأت کر سکتے ہیں۔ جیسے جیسے موٹروے کی اعلاناتی لمبائی بڑھے گی جمہوریت کے رنگ روڈز کے اندر یہ سبھی اکٹھے ہوتے جائیں گےاور یوں اس جمہوریت کو ایک پلڑے میں رکھ کے دوسرے میں اپنے اپنے وزن کے سہار سے پلڑے کو انصاف کی سوئی کے برابر کر کے خاموشی اختیار کر لی جائے گی۔

ہم نے دھرنے کے وقت ایسے ہی جمہوریت بچتے دیکھی حالانکہ بعد میں حقائق نے عمران خان کے مؤقّف کو درست ثابت کیا ۔ الیکشن میں دھاندلی بھی بد عنوانی تھی، ملک کا پیسہ لوٹنا بھی بدعنوانی، دھاندلی کے مقابلے میں جمہوریت کے نام پہ دھوکہ جیت گیا تھا اب بھی جیت جائے گا۔

تو کیا عوام سے خطرہ ہے۔نواز شریف صاحب کو اس عوام سے کیا خوف، جو کسی مریض کی طرح ذہنی و جسمانی طور پہ مفلوج ہو کے آپریشن کے پھٹّے پہ لیٹی ہے۔کوئی گردہ نکالے یا جگر، انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بی بی سی کی ڈاکیومنٹری ہو، کم بارکر کی کوئی کتاب ہو، وکی لیکس ہوں یا پھر پانامہ لیکس، عوام اسی جوش و خروش سے ان کے جلسوں میں شریک ہو رہے ہیں، امیدوار جیت رہے ہیں تو نواز شریف کو کیا پڑی کہ ان سات سوالوں کے جواب دے۔

اس کے علاوہ کون ہے جو ان سے جواب مانگنے کی ہمّت کر سکے۔ میڈیا کے لئے ان کے پاس پیمرا اور پی سی بی جیسے ادارے اور سیکرٹ فنڈز بہت، ایف بی آر، الیکشن کمیشن، نیب اور ان جیسے تمام دوسرے عوام کی خون پسینے کی کمائی سے پلنے والے سبھی نہ جانے کتنے سفید ہاتھی جن کا کام ہر دور میں فقط حکمرانوں کو کلین چٹیں جاری کرنے کا رہا ہے کیا وہ مانگیں گے جواب؟

اب پیچھے رہ جاتی ہے وردی،خوف تو ہے، یہاں ان کے پر تو جلتے ہیں، ان کالے بوٹوں اور تمغوں بھری چوڑی چھاتیوں کے سامنے ان کے پسینے تو چھوٹتے ہیں اور یہ بھی سچ کہ وہ جواب لینے کی ہمّت بھی رکھتے ہیں مگر عاشقان جمہوریت کو وہ گوارہ نہیں، انہیں وہ چھوٹو گینگز سے لڑتے ہی اچھے لگتے ہیں، سرحدوں پہ جان دیتے یا سیلابوں میں جان بچاتے، جمہوریت کے نام پہ لوٹنے والے گینگز کو نتّھ ڈالتے یہ کالے بوٹ انہیں جمہوری سر زمین کے تقدّس کی پامالی لگتے ہیں۔

تو میاں نواز شریف صاحب آپ سکون کی نیند سوئیں۔آپ اپوزیشن کو مستقبل کے متوقّع سوالوں سے بری کرنے کی یقین دیہانی کرا دیں وہ بدلے میں آپ کو ان سات سوالوں کے جواب بھی خود ہی فراہم کردے گی،اکیلا عمران خان نہ پہلے کچھ بگاڑ سکا آپ کا نہ اب بگاڑ سکے گا، عوام ویسے ہی بے ہوش ہے۔میڈیا آپ کے در کی باندی، ادارے آپ کی نگاہ مہرباں کے مقروض،وردی کم سے کم شرافت کی سربراہی تک آپ کے لئے بے ضرر۔

آپ آرام سے وقت کی گنگا کو بہتے رہنے دیں، تب تک دانیال عزیز یا اس جیسا کوئی اور شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادارکہ جن کی آپ کے پاس کوئی کمی نہیں کہیں نہ کہیں سے عوام کی لوٹی اس دولت پہ حلال کی مہر کا ناجائز ٹھپّہ لگوانے کا انتظام کر لے گا اور آپ سرخرو ہو جائیں گے۔ ان سوالوں اور سوال کرنے والوں کی اوقات کہاں اور آپ کی عظمت کہاں، آپ بس اگلے الیکشن کی تقریروں کی تیاری کریں، جس میں ہمیشہ کی طرح یہ جملہ ضرور شامل رکھئیے گا کہ ہم ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس لانے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔آپ بنا جوابوں کے ہی پاس ہیں، آپ جواب کیوں دیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے