معاشرتی برائیاں،ذمہ دار کو ن؟

معاشرے میں برائیا ں کون پیدا کرتا ہے معاشرے میں برائیا ں ہم انسان خود پیدا کر تے ہے جبکہ انسان کو اللہ تعا لیٰ نے احسا سات اور جذ بات دے کر پیدا کیا ۔انسانی زندگی پر ما حول ا ثر انداز ہو تے ہیں انسان پیدائشی طور پر بہت سی خصو صیات لے کر آتا ہے ما حول ان خصوصیا ت کو سنوارتا بھی اور بگاڑ تا بھی ہے ۔انسان کے ساتھ ساتھ ہر جاندار میں احساسات و جذبات موجو دہو تے ہے چاہے وہ انسان ہو یا جانوار ۔یہ جذبات ہی ہیں جن کا اظہار ہمارے رویوں کی صورت میں سامنے آتا ہے ‘ماہرین کا اس بات پر اتفا ق ہے کہ اگر جذبات انسان کے اندر سے ختم ہو جا ئیں تو زندگی کی ساری خوبصورتیاں ختم ہو جاتی ہیں ۔ہم سب کا زندگی میں متحرک ہو نا انہی جذبات کی مرہون منت ہے ‘خوف ‘غصہ ‘نفرت‘پیار ‘محبت ‘خو شی ‘نا خو شی یہ سب انسان کی صحت پر اثرات مر تب کر تے ہیں ۔

بعض لوگ جذبات کو منفی انداز میں استعمال کر تے ہیں غلط کام کر کے یا غلط بات کر کے کہتے ہیں جذبات میں کر دیا جذبات میں آکر کہہ دیا یہ ہی چھو ٹی چھوٹی باتیں ہو تی ہیں جو بعد میں بڑی برائی بن جاتی ہے ۔ ہمارے معاشرے میں برائی کی وجہ اسلامی تعلیمات سے دوری کا نتیجہ ہے . آج کل والدین اپنے بچو ں کو چھوٹی سی عمر میں اسکول تو بھیج دیتے ہیں مگر مدرسہ نہیں بھیجتے ہیں اور یہ کہتے ہیں ابھی تو میرا بچہ بہت چھوٹا ہے بچو ں کی تربیت جب وہ چھو ٹے ہو تے ہیں تب سے ہی شروع کر نی چاہئے جب چھوٹے بچے گا نا گاتے ،ڈانس کر تے، ضدکر تے اور بد تمیزی کر تے ہیں توبڑے بہت خوش ہو تے اور ان کی ہر ضدپوری کر تے ہیں . کسی بھی طرح سے ا ور کہتے ہیں بڑا ہو کر خود ہی ٹھیک ہو جائے گا لیکن ان والدین کو یہ بات سمجھ نہیں آتی اس طرح ان بچوں کی عادت پختہ ہو جاتی ہے بڑے ہو نے کے بعد بھی ان میں یہ ساری عادت مو جود ہو تی ہیں اور پھر جب وہ بڑے ہو کر ضد، بدتمیزی اور اپنی من مانی کر تے ہیں تو پھر انھیں اس وقت روکا جائے تو وہ نافرمانی اوربد تمیزی پر اتر جاتے ہیں اور آج کل کی نو جوان نسل اتنی زیادہ جذباتی ہیں کہ ذ را ذرا سی بات پر اپنے والدین کو خود کشی کر نے کی دھمکی دیتی ہے یا پھر خود کشی کر نے کی کوشش کر تی ہیں آج کل ہر دوسر ے تیسرے دن اس طرح کی خبریں سنے کو ملتی ہے غلطی ان بچوں کی نہیں بڑوں کی ہو تی ہے جو بچوں کی ہر جائز اور ناجا ئز خو اہشا ت ہر حا ل میں پو ری کر تے ہیں اور جب وہ بڑے ہو تے ہیں اور انکی مرضی کے مطا بق انکی خواہشات پوری نہیں ہوتی تو پھر وہ غلط راستہ اختیار کر لیتے ہیں پھر و الدین کو احساس ہوتا ہے کہ انھوں نے کتنی بڑی غلطی کی ہے بہت سی اسی بر ائیاں جو والدین خود اپنے بچو ں کے اند ر پیدا کر تے ہیں مثلاًاگر کسی کا فون آگیا اور انکا بات کر نے موڈ نہ ہو تو اپنے بچوں کوفون دیں کر کہتے ہیں بول دو سورہے یا طبیعت خراب ہے اور اسطرح ان بچوں میں جھوٹ بو لنے کی عادت ہوجاتی ہے اکثر میں نے دیکھا ہے خواتین اپنی چھوٹی بچیوں سے کہتی ہیں دیکھنا پڑوس کے گھر کو ن آیا ہے ان کے گھر کیا پکاہے یا وہ دونوں آنٹیاں آپس میں کیا باتیں کر رہی ہیں ۔آج کل لڑکیاں بڑے فخر سے کہتی ہیں ہم تو گھر پر ایک کام نہیں کرتے ہمیں تو صرف انڈا بنا آتا ہے جب پو چھوتو گھر میں کون کام کر تا ہے کھا نا کو ن پکا تا ہے بڑے مزے سے کہتی امی کر تی ہے مجھے تو وہ ایک کام میں بھی ہاتھ لگا نے نہیں دیتی پھر جب ان لڑکیوں کی شادی ہو جاتی ہے ان پر بہت ذمہ داری پڑتی ہے پھر وہ ان ذمہ داری کوپو راکر نہیں پاتی اور پھر وہ اپنی ما ں کے گھر آکر رو رو کر کہتی میری ساس مجھ پر ظلم کر تی ہے اتنا کام کر واتی ہے وغیر ہ وغیرہ تب بھی انھیں احساس نہیں ہو تا کہ انھوں نے اپنی بھی کوکچھ نہیں سکھایا بلکہ وہ تو کہتی ہیں اچھا بات کر تی ہو ں تمھا ری ساس سے اور کچھ والدین تو ایسے بھی ہے جو اپنے بچوں کو نوکر کے حوالے کر کے اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو تے ہیں انھیں نہیں پتا ہو تا ان بچے کس سے ملتے ہیں ؟کیا کرر ہے ہیں؟ ان کے دوست کیسے ہیں؟ وہ اسکول و کالجز میں کیا کر تے پھر تے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے بچو ں کو زیادہ سے زیادہ آسائش دے کر اپنا فرض پو را کر رہے ہیں اس طرح چھوٹی چھوٹی با تیں معاشرے میں برائیا ں پیداکر تی ہیں۔ آج بڑھتے ہو ئے جرائم کے نوجوان نسل پر جس قدر اثرات مر تب ہو رہے ہیں ۔اس کی بڑی وجہ تعلیم کی شرح خواندگی کا کم ہونا اور ہما ری عملی تر بیت کا اسلامی طرز زندگی کے اصولوں کے عین مطا بق نہ ہو نا ہے ۔اور ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ ویسے تو ہمارے معاشرے میں بہت سی برائیاں ہیں کچھ قابل برداشت اور کچھ ناقابل برداشت ،جھوٹ،چوری اور انٹرنیٹ کمپیوٹر(سوشل میڈیا) موبائل فون ان سب سہولتوں نے جہا ں ہمارے لیئے آسانیاں پیدا کی ہیں وہا ں ہماری آنے والی نسلوں میں بہت سی خرابیاں بھی پیدا کر چکی ہیں ہم آنے والی نسلو ں کو ان سے بچا نہیں سکتے کیونکہ یہ سب ہماری ضر و رت بن چکی ہیں اور یہ ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں اور تو اور ہمارے معاشرے میں ایک نئی برائی جنم لے رہی ہے اور ہمیں اس کو آگے بڑھنے سے روکنا ہے کیونکہ یہ برائی ہمارے بچوں کو اپنی روایات اورمذہبی اقدار سے دور کر سکتی ہے ہمیں اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ کوئی بھی مسلما ن مغرب کی تقلید میں اندھا دھند آنکھیں بند کر کے ان رسومات کا شکار ہو سکتا ہے یہ برائی ہے مر نے والوں کی یاد میں شمیں جلا کر اظہار افسوس کر ناجی ہا ں یہ رسم مغرب کی تقلید میں ہمارے ہاں تیزی سے پنپ رہی ہے ۔مسلما نوں میں تعزیت کا سب سے بہترین اسلامی طریقہ نماز جنازہ ،دعائے مغفرت ،تلاوت قرآن پاک ،روح کے ایصال ثواب کے لیے خیرات صدقہ وغیرہ ہے۔اچھائی کو فروغ اور برائی کو ابتداء سے ہی روکنا ہمارا فریضہ ہے معا شرے میں ان ساری برائی کے ساتھ ایک سب سے بڑ ی کی و جہ غر بت بھی ہے غربت سے تنگ آکر بھی لوگ جرم کی طرف راغب ہو تے ہیں اس ملک کی 98%عوام غریب ہیں ۔ بہت سے غریب اپنی غربت سے تنگ آکراپنے ہی بچوں کو قتل کر نے پر مجبور ہو جاتے ہیں اس طرح کے جرم میں ہم سب بھی شامل ہیں کیا ہم اپنے ارد گرد کے لوگوں کی تھوڑی بہت مدد نہیں کر سکتے ہم مہنگے کپڑے خرید تے ہیں مہنگے ہو ٹلوں میں کھانا کھاتے ہیں تو کیا ایک حصہ ہم اپنے غریب رشتے دار یا پڑوسی کو نہیں دے سکتے اگر ہم ان ساری چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال کر یں تو ہم معاشر ے میں بہت سی برائی پیدا ہو نے سے پہلے ہی روک سکتی ہیں اسلام میں صدقے اور خیرات دینے کی اتنی زیادہ کیوں تلقین کی گئی ہے اس لئے تاکہ معاشرہ برائی سے پاک رہے اسلامی تعلیما ت پر ع
مل کر یں اور اپنے بچوں کو بھی اس پر عمل کر نے کی تلقین کریںآج آپ جو بو ئیں گے کل وہی کاٹیں گے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کی اسلامی تعلیمات پر عمل کر نے کی توفیق عطا فرمائیں ۔۔۔۔۔۔۔آمین

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے