گر جنگ لازم ہے تو جنگ ہی سہی

یہ کہانی ہے ایک بچے کی جو سڑک پر بری طرح چلا رہا تھا اور ساتھ ہی اپنی مدد کے لئے کسی کو پکار رہا تھا ، عجیب الجھا ہوا سا ، جیسے اس کا ذہن خالی ہو لیکن زبان سے صرف صدائیں ہی بلند ہو رہی ہوں اور جو اس بے رحم معاشرے میں رہنے والے بھیڑیوں سے فرار پانا چاہتا ہو ۔

میں نے سوچا کہ آج اس بچے کی کہانی ہی لکھ دوں کیونکہ قلم ہاتھ میں آجانے کا یہ مطلب نہیں کہ صرف مقتدر طبقے کے گن گائے جائیں کیونکہ اصل میں ان کے گیت گانے والے بہت ہیں ، لکھنا چاہیے اور بولنا چاہیے تو ان کے حق میں جن کے ساتھ ظلم و زیادتی ہوتی ہے جن کا کوئی بولنے والا نہیں ۔

خیر ذکر اسی بچے کا ہورہا تھا جس کی عمر بمشکل تیرہ سال کی ہو گی اور عین سڑک کے بیچوں بیچ اس سے عمر میں بڑے دو تین لڑکوں نے اسے اپنے گھیرے میں لے رکھا تھا اور اسکے ساتھ بدفعلی کی سرعام کوشش ہو رہی تھی وہ بچہ گڑگڑا رہا تھا اور اسے یہ دھمکیاں بھی دی جا رہی تھیں کہ اسکی بنائی گئ اس ویڈیو کو باقاعدہ سوشل میڈیا پر وائرل کر دیا جائے گا ۔

یہ سب واقعہ میرا آنکھوں دیکھا نہیں صرف میرے ایک دفتر کے ساتھی کا سنایا ہوا ہے کہ جب بچے کو بے لباس کیا جا رہا تھا تو وہ چیخیں مار رہا تھا ، رات کا وقت تھا اور کوئی اسکو بچانے کا رسک نہیں لے سکتا تھا کیونکہ ظاہر ہے کہ ایسا کرنے والوں کے ہاتھ بھی لمبے ہیں اور دولت کی تجوریاں بھی بھری ہوئی ہیں ۔

ایک چیز جو میں بہت دنوں سے محسوس کر رہی تھی وہ یہ ہے کہ گذشتہ دنوں غیرت پر قتل کے معاملے بھی زیر بحث رہے ، لڑکیوں اور خواتین کو بھی ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا ان کے بارے میں کالم اور مضامین تحریر ہوئے لیکن کیا صرف یہ لڑکیاں ہی مظلوم ہیں یہ بچے نہیں ؟ جن کے ساتھ زبردستی بدفعلی کی جارہی ہے ، جن کی ویڈیوز بنا کر سوشل میڈٰیا پر اپ لوڈ کی جا رہی ہیں ، آخر کیوں ان کے بارے میں ایک لفظ نہیں کہا جاتا ، یہ تو بہت آسانی سے کہہ دیا جاتا ہے کہ پشاور کے پارکوں میں بدفعلی ہو رہی ہے اور جو دارالحکومت میں اندھیر نگری مچی ہوئی ہے اسکا کیا حال ہے ؟ کیا ایسے معصوم بچوں کی کوئی شنوائی نہیں ، ان کے لئے کوئی کالم لکھنے والا نہیں ۔
دنیا میں کتنی قومین صبح و شام لڑتی ہے ، دولت کے لئے ، پیسے کے لئے ، نام و شہرت کے لئے جبکہ یہ جنگیں نہیں ہیں جنگ تو نام ہے جہالت کے خلاف لڑنے کا ، جنگ نام ہے یزیدیت کے خلاف نعرہ بلند کرنے کا ، جنگ نام ہے ان بے کس بچوں کے لئے آواز بلند کرنے کا ، یہی لکھتے ہوئے ساحر لدھیانوی کے کہے ہوئے چند مصرعے میرے ذہن میں آگئے اور میں نے بھی سوچ لیا کہ ابھی بھی بہت دیر نہیں ہوئی اب تو جہالت کے خلاف جنگ کر لی جائے ۔

ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کے خلاف
گر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی
ظالم کو جو نہ روکے وہ شامل ہے ظلم میں
قاتل کو جو نہ ٹوکے وہ قاتل کے ساتھ ہے
ہم سر بکف اٹھے ہیں کہ حق فتحیاب ہو
کہہ دو اسے جو لشکر باطل کے ساتھ ہے
اس ڈھنگ پر ہےزور تو یہ ڈھنگ ہی سہی

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے